Pages

جمعرات، 28 نومبر، 2013

ڈارون کے اس کہنے کی تردید کہ اصل انسان بندر ہے!


ڈارون کے اس کہنے کی تردید کہ اصل انسان بندر ہے!
            کتنے افوسو کی بات ہے کہ محمد صل الله علیہ وسلم تو فرمائیں کہ انسان کی اصل انسان ہے اور ڈارون جو ایک ملحد ہے وہ کہے کہ سب سے پہلے ایک مادہ متلعق تھا اور پھر تحرک سے اس میں حرارت پیدا ہوئی اور شمس وغیرہ بنا اور اسکے بعد پھر نباتات بنے، پھر حیوانات بنے ، ان میں بندر بنا اور بندر یکا یک جست کر کے انسان بن گیا، اسی طور پر وہ تمام حیوانات و نباتات میں اسی کا قائل ہے کہ ایک دوسرے سے نکلتے چلے آئے ہیں ، تو محمد صل الله علیہ وسلم کے فرمانے پر شبہ کیا جاتا ہے اور ڈارون کے کہنے پر یقین کر لیا جاتا ہے، یہی ایمان ہے.....؟ ڈارون تو صانع (بنانے والے) کا قائل نہیں تھا  اس لئے ایسی بعید اور بیہودہ تاویلیں کرتا تھا ، مگر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کے صانع کو مانتے ہیں اور پھر ایسی مہمل تاویلوں سے قرآن پر شبہ کرتے ہیں شاید کوئی یہاں یہ کہے کہ ہم کو تحقیقات جدیدہ سے قرآن پر شبہ اس لیے ہوتا ہے کہ حکماء کا مشاہدہ ہے اور اسی بناء پر ہم کو قرآن پر شبہ ہے کہ مشاہدہ کے خلاف کیوں ہے؟ یہ پہلے سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات ہے.
یہ مشاہدہ ہے
            میں کہتا ہوں کہ آپ تو مشاہدہ کی حقیقت کو نہیں جانتے، میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ مادہ خود بخود متحرک ہو کر اس سے ایک صورت پیدا ہوگیی ؟ پھر شمس و کوکب ہوئے، نباتات ھوگئی اور نباتات سے حیوانات اور حیوانات میں ایک خاص نوع بندر بھی تھی ، پھر بندر یکا یک جست کر کے انسان ہوگیا، یہ سب ڈھکوسلے ہیں، ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ خود ان مقرین بالقرده کو بھی بندر نہ بننے دیں، آدمی ہی بنائیں یہی مشاہدات ان ہی ڈھکوسلوں اور مہمل اور وہمی باتوں کو مشاہدات قرار دے کر خدا اور رسول پر شبہات اور اپنے کو مسلمان کہتے ہیں...!!! افسوس کی بات ہے ، کیا یہ مشاہدات ہیں کہ آفتاب کو سکون ہے؟ زمین کو حرکت ہے؟ خیر ہمیں اس سے بحث نہیں کہ کس کو سکوں ہے اور کس کو حرکت؟ کیوں کہ یہ قرآن کے مخالف نہیں، مگر سوچ لو کہ اتنا بڑا دعوی کس بنا پر ہے؟ دلیل کچھ بھی نہیں ، مگر ہم کہیں گے کہ "الشمس تجری" چونکہ قرآن میں وارد ہوا ہے ، اسلیے آفتاب کو ساکن محض ماننے سے گنہگار ہوں گے زمین کو چاہے ساکن نہ مانئے، متحرک محض مانئے مگر آفتاب کو بھی متحرک ماننا پڑے گا.
زمین کی حرکت کا مسئلہ:
            شاید کسی کو یہ شبہ ہو کہ : " وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ"سے تو زمین کا سکوں ثابت ہوتا ہے، پھر یہ کہتے ہو کہ حرکت ارض کا ماننا قرآن کے خلاف نہیں، جواب یہ ہے کہ اس سے نفی حرکت اضطراریہ مراد ہے ، غیر اضطراریہ کی نفی مراد نہیں ، غرض اس کی آپ کو اجازت ہے کہ زمین کو اگر جی چاہے متحرک مانیں کچھ حرج نہیں ، اسی طور اس کی خبر دی گئی ہے کہ آسمان موجود ہے یہ کون سے مشاہدہ کے خلاف ہے؟ گو اس نظام طلوع و غروب کے لیے سماوات کی ضرورت نہ ہو لیکن نظام خاص میں ضرورت نہ ہونا نفی کی تو دلیل نہیں ہوسکتی، آسمان دوسری مستقل دلیل سے ثابت ہے، اس کی نفی کرنا جائز نہیں ، یہ کس مشاہدہ سے ثابت ہے کہ آسمان نہیں ہے؟ بلکہ ہم آپ کے ممنون ہیں کہ اپ نے اس نیلگوں صورت کو حد نظر مان کر آسمان کی نفی کا ہمیں جواب سکھا دیا، کیونکہ قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں آیا کہ یہ نیلا نیلا جو نظر آتا ہے ، یہی آسمان ہے، پس  اگر آپ کہیں گے کہ اگر آسمان کوئی چیز ہے تو نظر کیوں نہیں آتا؟ ہم یہ کہیں گے کہ نظر اس لیے نہیں آتا کہ آپ نے اسی سقف نیلی کو حد نظر مان لیا ہے، پس جب یہ حد نظر ہے ، تو آسمان اس کے آگے ہے اور چونکہ نظر کی یہاں تک انتہا ہو جاتی ہے اس لیے آگے کچھ نظر نہیں آتا، اب آپ کو آسمان کے نفی کرنے کی بلکل گنجائش نہیں رہی کہ ہم حکماء کے قول پر قرآن کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ مشاہدہ کی بناء پر.

آفتاب کا طلوع و غروب ہونا
            جس کی مثال میں یہ پیش کیا کرتے ہیں کہ مشاہدہ سے ثابت ہوا ہے کے غروب کے وقت آفتاب زمین کے اندر نہیں جاتا اور قرآن مجید میں سکندر ذو القرنین کے قصہ میں مذکور ہے کہ آفتاب کیچڑ اور دلدل میں غروب ہوتے پایا ، بھلا دیکھو! کتنا مشاہدہ کے خلاف ہے؟ آفتاب ایک جزم عظیم، زمین سے کتنا ہی حصہ بڑا ہے، کہیں زمین کی دلدل اور کیچڑ میں غروب ہو سکتا ہے؟ لیکن اگر عقل ہوگی تو اس میں جواب نظر آئے گا ، یعنی قرآن مجید میں " وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي .....الخ " وارد ہوا ہے، یعنی اس کو بادی النظر میں ایساپایا یعنی اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کیچڑ میں دھنس رہا ہے، یہ نہیں فرمایا :" غربت فی حمئة " جہاز پر سوار ہوکر دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب سمندر میں سے نکلتا ہے اور اسی میں ڈوب رہا ہے ، اسی طرح پر ہم روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں آفتاب کے طلوع و غروب کا یہی معلوم ہوتا ہے کہ زمین ہی سے نکلا زمین میں ہی گھس گیا ، پھر مشاہدہ کے خلاف کیا ہوا؟ اب فرمائیے! مشاہدے سے کہاں تعرض ہے؟ کہیں بھی نہیں ، پھر افسوس ہے کے مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور قرآن اگر فیثاغورث کے قول کے مخالف ہو تو قرآن پر خلاف مشاہدہ کا شبہ کرتے ہیں ، فیثاغورث کے قول پر خلاف واقعہ ہونے کا شبہ نہیں ہوتا، اسلام کی عظمت قلوب سے جاتی رہی، غرض یہ ہے کہ نئے مزاق میں یہ خرابی پیدا ہوگئی ہے کہ سائنس والے جو کہ دیں اس پر تپ "آمنا و  صدقنا" قرآن پر شبہات.
اللھمّ احفظنا.

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔