Pages

جمعہ، 29 نومبر، 2013

کیا ختنہ کروانا الله خلقیت میں تبدیلی کرنا ہے



اشکال و جوابات
لا تبدیل لخلق الله (الآیة)
سوال : اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ خداوند قدّوس کی خلقیت کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہے لیکن یہ لوگ زمانہ ازل سے لیکر اب تک یہ عمل کرتے آرہے ہیں کہ بچہ پیدا ہوتا ہے. تو ٢/یا ٤/ سال کے بعد ختنہ کر دیتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ خدا کی خلقیت کے اندر شک کرتے ہیں گویا کہ تم تغیر خلق الله کے عامل ہو تو خود خدا کے منکر ہوں.
جواب : ختنہ سے تغیر الله لازم نہیں آتا اس لیے کہ حق جل شانہ نے اپنے خلیل حضرت ابرهیم علیہ السلام کو ٨٠ سال کی عمر میں ختنہ کا حکم فرمایا چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس حکم کی تعمیل فرمائی ، کہ یہ عمل حق تعالى کے حکم کی تعمیل ہے نہ کہ خالق کی خلقت پر کسی طرح کا تغیرو تبدل اور نہ ہی شک و شبہ ہے.
        دوسرا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ ختنہ کے اندر ناپاک شئی کو خارج کرتے ہیں یعنی جس طرح ناخن اور زیر ناف کے بال اور بگل کے بال کو کاٹتے ہیں تا کہ انسان گندگی سے مبرہ و منزہ رہے بعینہ یہی حال بچہ (کی ختنہ) کا ہے. 

مکمل تحریر >>

کیا الله عرش پر مقیم ہے؟؟؟


اشکال و جوابات
ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ
سوال: قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ حق جل مجدہ عرش پر مقیم ہے اور آپ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ قائم وہ شخص ہوتا ہے جو ذوجسم ہو اور ذی روح  ہو. نتیجتاً محدود ہونا لازم آتا ہے اور جو جسم مادہ سے مرکب ہوتا ہے تو وہ مادہ محدث و تجدد کا مقتازی  ہے اور یہی دونوں تعدد الہ کو مستلزم ہے.
جواب: جناب آپ نے استویٰ کو تو سمجھا ہی نہیں استویٰ سے وہ مراد قطعاً نہیں جو آپ نے سمجھا ہے استویٰ کے معنی متمکن ہونا نہیں جیسا کہ آپ نے ترجمہ کیا ہے کہ الله تعالى عرش پر مقیم ہے حق جل مجدہ کا یہ فرمان کہ ثم استویٰ علی العرش کا مفہوم حقیقی یہی ہے کہ حق تعالى عرش پر محیط ہے اب یہ احاطت غالبیت پر دال ہے اب یہ بات واضح ہوگئی کہ الله تعالى عرش پر مقیم نہیں بلکہ حاوی علی العرش ہے ذات الہی کا عرش پر حاوی ہونا عدم جسم و محدود لازم آتا ہے اور جب آپ کی ذات جسم و جہات سے اور تحدید سے بالاتر ہوگئی تو تحدث و تجدد اس پر لازم نہیں آتا چنانچہ اس صحت معنی کے ساتھ اپ کے سوال کی دیوار منہدم ہو جاتی ہے

مکمل تحریر >>

حروف مقطعات پر اشکال اور اس کا جواب



سوال:الم، يس، طه، وغیرہ ذالک یہ ایسے حروف ہیں جن کے معنی و مفاہیم کو کوئی بھی شخص نہیں جانتا ہے اور کسی کام کا نہ جاننا اور پھر بھی اس کام کا کرنا لغو اور بیکار ہے لہٰذا مفسرین کرام کا قول ہے کہ الم ،یس، طہ وغیرہ قرآن کا جز ہے اور اس کی تلاوت کرنی چاہئے سراسر بندوں کو لغو باتوں میں مشغول کرنا ہے لہٰذا قرآن کے چند جز کا لغو ہونا پورے قرآن کا لغو ہونا لازم آتا ہے اس اس معلوم ہوا کہ پورا قرآن لغو ہے (نعوذ باللہ)
جواب: کلام لغو اس وقت ہوتا ہے جب خود متکلم اپنے کلام کے مرادات سے ناواقف ہو اور یہ کلام کلام الہی ہے جس کا متکلم خود الله کی ذات ہے خود آپ معترف ہیں کہ اس کے مرادات کو الله جانتا ہے جو خود ابطال لغو ہے ، رہی بات بندے کی تو بندہ بغیر سمجھے اس کی تلاوت کرتا ہے تو بندے کے اس فعل کو عبث قرار دیا جائے اس میں الله نے اپنے بندوں کا امتحان لیا ہے کہ آیا میرے بندے صرف میری باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس کے عقل میں آتی ہے اور جو انکی سمجھ سے بالاتر ہو اس پر ایمان رکھتا ہے یا نہیں الغرض اس میں ایمان بالغیب کی دعوت ہے اور آمنا بما انزل الینا کی ترغیب ہے.
مکمل تحریر >>

آیت إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ پر اشکال اور اسکا جواب


إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اشکال و جواب
سوال: اس آیات کے اندر فرمایا گیا ہے کہ الله تعالى ہر چیز پر قادر ہے اور ہر چیز کے اندر زنا ، اسی طرح بچہ کا پیدا کرنا لازم آتا ہے تو اس آیات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ الله تعالى زنا کرنے پر قادر ہیں اسی طرح بچہ پیدا کرنے پر قادر ہیں نعوذ باللہ الفاً الفاً الی یوم القیامة جب بچہ پیدا کرنے پر قادر ہیں تو ان کے مولود کا متفرق ہونا لازم آتا ہے جب ان کے مولود متفرق ہوں گے تو وہ بھی قادر مطلق ہوں گے جب وہ بھی قادر مطلق ہوں گے تو کئی کئی معبود کا ہونا لازم آتا ہے تو لہٰذا متعدد معبود کا ہونا ثابت ہوگیا.
جواب: اے نادانو! تم نے آیت کریمہ کا مفہوم سمجھا ہی نہیں کیوں کہ اس بات کا میں بھی قائل ہوں کے حق جل مجدہ ہر چیز پر قادر ہیں لیکن خداوند قدّوس کے جانب زنا کا سپرد کرنا سراسر غلط ہے اس کی مثال یوں لیجئے تاکہ آیت کا مفہوم کالشمس علی نصف النہار ہو جائے جیسے ایک آدمی ہے ان کے پاس لڑکیاں ہیں اور بہو بھتیجی بھی ہیں اب یہ شخص اپنی لڑکیاں اور بہو بھتیجی سے زنا کرنے پر قدرت رکھتا ہے لیکن پھر بھی زنا نہیں کرتا کیوں کہ یہ عمل نہایت حقیر اور قابل ملامت عمل ہے اب بھلا بتائیے کہ اس حقیر عمل کو کرنے سے بندہ شرماتا ہے تو خداوند قدوس سے کیسے صدور ہوسکتا ہے. جب خدا سے مذکورہ عمل کا صدور نہیں ہوسکتا ہے تو انکے حادث ہونے کا عقیدہ رکھنا سراسر غلط ہے اب رہی بات کہ بچہ پیدا کرنے پر قادر ہیں تو اگر آپ انکے لئے بچہ کا پیدا کرنا تسلیم کریں گے تو واجب المتعددہ لازم آتا ہے  جو کے محال اور باطل ہے.
مکمل تحریر >>

قرآن کیوں نازل کیا گیا؟


سوال: قرآن نازل ہونے کی کیا ضرورت تھی جب کہ قرآن کے پہلے کئی الہامی کتابیں اتری تھیں اگر وہ کامل نہیں تھی تو قرآن کے کامل ہونے کا کیا ثبوت ہے ، کیا خدا اپنی عبارتوں کو چھوڑ دے گا جو اپنے احکام کی ترمیم و تنسیخ کرنے پر تیار رہتا ہے؟
جواب: قرآن کے نازل ہونے کی وہی ضرورت تھی جو دیگر کتب کے نازل ہونے کی ضرورت تھی حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر جناب محمد مصطفیٰ صل علیہ وسلم کے زمانے تک جس قدر احکام خدا کی طرف سے حسب اقتضاء ضرورت نازل ہوئے اور انھیں احکاموں کو جس وقت کے لوگوں نے اپنی یادداشت کے واسطے کتاب کی صورت میں جمع کیا پس وہی مجموعہ احکام الہامی کتاب ہے جو اپنے زمانۂ کی ضرورتوں کے لحاظ سے یقیناً کامل ہے کیوں کہ زمانے کی جس جس قوم نے اپنی تربیت ایمانی و روحانی کے خراب کرنے والے جس قدر سامان فراہم کئے تھے ان کے دفیعہ کا کافی علاج خدا کے احکام میں موجود تھا اور یہ سلسلہ اصلاح اور درستگی کے طور پر خداۓ تعالى نے جاری رکھا کہ ہر ایک گمراہ قوم کو جو کہ تعلیم الہی سے ناواقف تھے انھیں کے ایک ایسے شخص کو جو سلیم الطبع سمجھا گیا نبوت اور رسالت پر معمور فرما کر ایک قانون عطا فرمایا کہ جس میں کامل طور پر اس کی اصلاح کی گئی تھی بایں لحاظ جس قدر کتابیں منزل من الله (الله کی طرف سے نازل کردہ ہیں ) میں وہ یقیناً سب کے سب کامل و مکمل اور اکمل ہیں جن کی وجہ یہ بھی ہے کہ خدا کے تمام کام مطابق عقل و شعور ہیں گو بوجھ تعصب سے ان کے سمجھنے سے آریہ و ملحد صاحبان مجبور ہیں بقول آنکہ اندھیروں میں ویدوں کے بے نور ہیں " اجالے سے قرآن کے دور ہے".
          میرے دوستو! وحی الہی کے مختلف اوقات میں نازل ہونے کی یہی وجہ ہے کہ ایک امت گزشتہ کے بعد جب دوسری قوم نے علاوہ ان گزشتہ شرارتوں کے نئی نئی شرارتیں ایجاد کی اس لیے ضرورت تھی کہ ان کی شرارتیں دور کرنے اور ناواقف لوگوں کو آگاہ کرنے کے واسطے جدید احکام نازل فرمائے جس کی واجہ یہ تھی کہ گمراہ لوگ راہ یاب ہوجائیں اور قرآن کے کامل و اکمل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ باری تعالى نے فرمایا " الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا "یہ کہ میں نے تمہارے دین اسلام کو مکمل کردیا. نیز قرآن کے کامل ہونے پر مہینوں مہینوں بحث ہوسکتی ہے تب بھی دلائل ختم نہ ہوں گے لیکن وقت ہمیں اجازت نہیں دیتا.
مکمل تحریر >>

جمعرات، 28 نومبر، 2013

ڈارون کے اس کہنے کی تردید کہ اصل انسان بندر ہے!


ڈارون کے اس کہنے کی تردید کہ اصل انسان بندر ہے!
            کتنے افوسو کی بات ہے کہ محمد صل الله علیہ وسلم تو فرمائیں کہ انسان کی اصل انسان ہے اور ڈارون جو ایک ملحد ہے وہ کہے کہ سب سے پہلے ایک مادہ متلعق تھا اور پھر تحرک سے اس میں حرارت پیدا ہوئی اور شمس وغیرہ بنا اور اسکے بعد پھر نباتات بنے، پھر حیوانات بنے ، ان میں بندر بنا اور بندر یکا یک جست کر کے انسان بن گیا، اسی طور پر وہ تمام حیوانات و نباتات میں اسی کا قائل ہے کہ ایک دوسرے سے نکلتے چلے آئے ہیں ، تو محمد صل الله علیہ وسلم کے فرمانے پر شبہ کیا جاتا ہے اور ڈارون کے کہنے پر یقین کر لیا جاتا ہے، یہی ایمان ہے.....؟ ڈارون تو صانع (بنانے والے) کا قائل نہیں تھا  اس لئے ایسی بعید اور بیہودہ تاویلیں کرتا تھا ، مگر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کے صانع کو مانتے ہیں اور پھر ایسی مہمل تاویلوں سے قرآن پر شبہ کرتے ہیں شاید کوئی یہاں یہ کہے کہ ہم کو تحقیقات جدیدہ سے قرآن پر شبہ اس لیے ہوتا ہے کہ حکماء کا مشاہدہ ہے اور اسی بناء پر ہم کو قرآن پر شبہ ہے کہ مشاہدہ کے خلاف کیوں ہے؟ یہ پہلے سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات ہے.
یہ مشاہدہ ہے
            میں کہتا ہوں کہ آپ تو مشاہدہ کی حقیقت کو نہیں جانتے، میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ مادہ خود بخود متحرک ہو کر اس سے ایک صورت پیدا ہوگیی ؟ پھر شمس و کوکب ہوئے، نباتات ھوگئی اور نباتات سے حیوانات اور حیوانات میں ایک خاص نوع بندر بھی تھی ، پھر بندر یکا یک جست کر کے انسان ہوگیا، یہ سب ڈھکوسلے ہیں، ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ خود ان مقرین بالقرده کو بھی بندر نہ بننے دیں، آدمی ہی بنائیں یہی مشاہدات ان ہی ڈھکوسلوں اور مہمل اور وہمی باتوں کو مشاہدات قرار دے کر خدا اور رسول پر شبہات اور اپنے کو مسلمان کہتے ہیں...!!! افسوس کی بات ہے ، کیا یہ مشاہدات ہیں کہ آفتاب کو سکون ہے؟ زمین کو حرکت ہے؟ خیر ہمیں اس سے بحث نہیں کہ کس کو سکوں ہے اور کس کو حرکت؟ کیوں کہ یہ قرآن کے مخالف نہیں، مگر سوچ لو کہ اتنا بڑا دعوی کس بنا پر ہے؟ دلیل کچھ بھی نہیں ، مگر ہم کہیں گے کہ "الشمس تجری" چونکہ قرآن میں وارد ہوا ہے ، اسلیے آفتاب کو ساکن محض ماننے سے گنہگار ہوں گے زمین کو چاہے ساکن نہ مانئے، متحرک محض مانئے مگر آفتاب کو بھی متحرک ماننا پڑے گا.
زمین کی حرکت کا مسئلہ:
            شاید کسی کو یہ شبہ ہو کہ : " وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ"سے تو زمین کا سکوں ثابت ہوتا ہے، پھر یہ کہتے ہو کہ حرکت ارض کا ماننا قرآن کے خلاف نہیں، جواب یہ ہے کہ اس سے نفی حرکت اضطراریہ مراد ہے ، غیر اضطراریہ کی نفی مراد نہیں ، غرض اس کی آپ کو اجازت ہے کہ زمین کو اگر جی چاہے متحرک مانیں کچھ حرج نہیں ، اسی طور اس کی خبر دی گئی ہے کہ آسمان موجود ہے یہ کون سے مشاہدہ کے خلاف ہے؟ گو اس نظام طلوع و غروب کے لیے سماوات کی ضرورت نہ ہو لیکن نظام خاص میں ضرورت نہ ہونا نفی کی تو دلیل نہیں ہوسکتی، آسمان دوسری مستقل دلیل سے ثابت ہے، اس کی نفی کرنا جائز نہیں ، یہ کس مشاہدہ سے ثابت ہے کہ آسمان نہیں ہے؟ بلکہ ہم آپ کے ممنون ہیں کہ اپ نے اس نیلگوں صورت کو حد نظر مان کر آسمان کی نفی کا ہمیں جواب سکھا دیا، کیونکہ قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں آیا کہ یہ نیلا نیلا جو نظر آتا ہے ، یہی آسمان ہے، پس  اگر آپ کہیں گے کہ اگر آسمان کوئی چیز ہے تو نظر کیوں نہیں آتا؟ ہم یہ کہیں گے کہ نظر اس لیے نہیں آتا کہ آپ نے اسی سقف نیلی کو حد نظر مان لیا ہے، پس جب یہ حد نظر ہے ، تو آسمان اس کے آگے ہے اور چونکہ نظر کی یہاں تک انتہا ہو جاتی ہے اس لیے آگے کچھ نظر نہیں آتا، اب آپ کو آسمان کے نفی کرنے کی بلکل گنجائش نہیں رہی کہ ہم حکماء کے قول پر قرآن کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ مشاہدہ کی بناء پر.

آفتاب کا طلوع و غروب ہونا
            جس کی مثال میں یہ پیش کیا کرتے ہیں کہ مشاہدہ سے ثابت ہوا ہے کے غروب کے وقت آفتاب زمین کے اندر نہیں جاتا اور قرآن مجید میں سکندر ذو القرنین کے قصہ میں مذکور ہے کہ آفتاب کیچڑ اور دلدل میں غروب ہوتے پایا ، بھلا دیکھو! کتنا مشاہدہ کے خلاف ہے؟ آفتاب ایک جزم عظیم، زمین سے کتنا ہی حصہ بڑا ہے، کہیں زمین کی دلدل اور کیچڑ میں غروب ہو سکتا ہے؟ لیکن اگر عقل ہوگی تو اس میں جواب نظر آئے گا ، یعنی قرآن مجید میں " وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي .....الخ " وارد ہوا ہے، یعنی اس کو بادی النظر میں ایساپایا یعنی اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کیچڑ میں دھنس رہا ہے، یہ نہیں فرمایا :" غربت فی حمئة " جہاز پر سوار ہوکر دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب سمندر میں سے نکلتا ہے اور اسی میں ڈوب رہا ہے ، اسی طرح پر ہم روزانہ مشاہدہ کرتے ہیں آفتاب کے طلوع و غروب کا یہی معلوم ہوتا ہے کہ زمین ہی سے نکلا زمین میں ہی گھس گیا ، پھر مشاہدہ کے خلاف کیا ہوا؟ اب فرمائیے! مشاہدے سے کہاں تعرض ہے؟ کہیں بھی نہیں ، پھر افسوس ہے کے مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور قرآن اگر فیثاغورث کے قول کے مخالف ہو تو قرآن پر خلاف مشاہدہ کا شبہ کرتے ہیں ، فیثاغورث کے قول پر خلاف واقعہ ہونے کا شبہ نہیں ہوتا، اسلام کی عظمت قلوب سے جاتی رہی، غرض یہ ہے کہ نئے مزاق میں یہ خرابی پیدا ہوگئی ہے کہ سائنس والے جو کہ دیں اس پر تپ "آمنا و  صدقنا" قرآن پر شبہات.
اللھمّ احفظنا.
مکمل تحریر >>

بدھ، 27 نومبر، 2013

قیامت کے دن کافروں کے چہرے سیاہ ہو جائینگے


اللہ تعالیٰ قرآن کریم سوره آل عمران آیت ١٠٦ میں فرماتے ہیں
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ
ترجمہ:" اس دن(قیامت کے دن) بعض چہرے سفید ہوں گے  اور بعض چہرے سیاہ ہوں گے ، پھر جن کے چہرے سیاہ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم ہی کافر ہوگے تھے اپنے ایمان کے بعد سو عذاب چکھو اپنے کفر کی پاداش میں."(القرآن ٣/١٠٦)
چہرے کی سفیدی اور سیاہی سے کیا مرد ہے؟

چہرے کی سفیدی اور سیاہی کا ذکر قرآن مجید میں بہت سے مقامات میں آیا ہے
مثلاً:
(الف) وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَّةٌ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ (٣٩/٦٠)
(ب) وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ، ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ ، وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ ،تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ (٨٠/٣٨-٤١)
(ج) وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ ،  إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ(٧٥/٢٢-٢٣)
        ان آیات میں ایک ہی مفہوم سے متعلق متعدد الفاظ ذکر کیے گئے ہیں ، یعنی "بیاض" اور "سواد" "غبرہ" ، "قرة" ، اور "نضرة" جمہور مفسرین کے نزدیک سفیدی سے مرد نور ایمان کی سفیدی ہے یعنی مومنین کے چہرے نور ایمان سے روشن اور غایت مسرّت سے خنداں اور فرحاں ہوں گے ، اور سیاہی سے مراد کفر کی سیاہی ہے یعنی کافروں کے چہروں پر کفر کی کدورت چھائی ہوگی اور اوپر سے فسق و فجور کی ظلمت اور زیادہ تیرہ و تاریک کردے گی.
      امام قرطبی ؒ نے اپنی تفسیر میں آیت يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ   کے متعلق فرمایا کے مومنین مخلصین کے چہرے سفید ہوں گے لیکن ان کے علاوہ ان تمام لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے جنہوں نے دین میں تغیر و تبدّل کیا ہو خواہ وہ مرتد اور کافر ہوگئے ہوں، خواہ اپنے دلوں میں نفاق کو چھپائے ہوئے ہوں ان سب کے ساتھ یہی معاملہ کیا جائے گا.(تفسیر قرطبی از معارف القرآن)

        بعض جاہل متعصبین نے اس آیت پر بعض اعتراضات کئے ہیں ان شاء الله ہم جواب دینے کی کوشش کرینگے
١. یہ کالے رنگ سے اتنی نفرت اور گورے سے اتنی محبت کیوں؟ اور کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ حضرت بلال حبشی بیچارے پر یہ آیت کیسی بجلی بن کر گری ہو گی؟

٢. الله پاک نے کالے کو برا اور گورے کو اچھا کہ کر پھر کالے لوگ کیوں پیدا کیے؟ کیا یہ نسلی انتہا پسندی نہیں ھے؟
٣. یوم قیامت کو حبشی لوگوں کا کیا بنے گا؟ ان کے چہرے تو ویسے ہی کالے ہوتے ہیں
الجواب بعون الوھاب:
معترض کے تینوں سوالات سے اس کی جہالت اظہر من الشمس ہے. ان تینوں سوالات کے جوابات اپ کو اپر ہماری خ گئی تفسیر میں مل جائیں گے.
سلسلے وار مختصر جوابات یہ رہے
١.حضرت بلال حبشیؓ ان آیات کے نزول کے وقت موجود تھے کچھ گزرتی تو پتا چل جاتا مگر کچھ نہیں گزری سواے خوشی کہ کیوں کہ وہ ایمان والے تھے اور قیامت کے دن ان کا چہرہ روشن ہی ہوگا .
٢. یہاں الله تعالى نے نہ گورے کو اچھا کہا اور نہ ہی کالے کو برا کہا ہے صرف مثال دی ہے کے ان لوگوں کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے جو کفر و ارتداد کرتے ہیں
لیجیے جناب آج دنیا میں برے کام کرنے والوں کی طرف کچھ اسی طرح نسبت کی جاتی ہے چند مثالیں
ا) سزا کے طور پر منہ کالا کیا جاتا ہے
ب) کوئی برا کام کر کے آنے والے کے لئے یہ جملہ زبان زد ہے
"کہاں منہ کالا کر کے آے"  علی ہٰذا بہت سی مثالیں دی جاتی ہیں
اس سے کسی کالے کی تخصیص نہیں ہوتی بل کہ اگر انڈے سے زیادہ بھی سفید ہو تو برے کام پر یہی کہا جاتا ہے .
٣. جیسا کہ آیات کی تفسیر سے واضح ہے کے اصل مدار نجات ایمان پر ہے تو موصوف جو یہ لکھ ہیں کے روز قیامت حبشیوں کا کیا ہوگا تو جواب یہ ہے کے حبشی اگر ایمان لے ہے تو وہ جنّت ممیں جائینگے انکے چہرے نور ایمان سے منور ہونگے اور اگر ایمان نہیں لائیں تو کفر کی ظلمت سے کالے ہونگے.
اب موصوف معترض کوچاہئے  کے پہلے اپنی فکر کریں اور قیامت کے دن ان کے ساتھ کیا ہوگا اس کا سونچیں اور ایمان لائیں ایک الله پر جس کے سوا کوئی معبود نہیں.
واللہ اعلم بالصواب.

مکمل تحریر >>

منگل، 26 نومبر، 2013

اسلام کی پانچویں خصوصیت


پانچویں خصوصیت
        اسلام کی یہ ہے کہ دنیا کے تمام شہوت پرست اور ہوس ران اس کے سخت دشمن ہیں . اسلام نے نفس کے حقوق واجبہ کا تو پورا لحاظ رکھا ہے لیکن شہوتوں اور نفسانی خواہشوں کا لحاظ نہیں رکھا بلکہ اسلام کی بنیاد ہی نفسانی شہوتوں کے خلاف ہے. اس لئے کہ اگر شہوتوں کو آزادی دے دی جائے تو پھر عالم کا تمام نظام درہم برہم ہو جائے . اور کسی کی جان مال ، عزت اور عصمت کوئی شئے محفوظ نہ رہے بلکہ یہ دنیا انسانوں کی دنیا نہ رہے حیوانوں اور جانوروں کی دنیا بن جائے. افسوس کہ اس کی ابتداء ہو چکی ہے اور دن بدن ترقی پر ہے. شہوت پرستوں کے نزدیک دنیا  ترقی کی طرف جا رہی ہے اور غیرت مند اسکو تزلزل اور تباہی سمجھ رہے ہیں. چونکہ اس عفیف اور پاکدامن مذہب میں شہوانی اور نفسانی لوگوں کے لئے کوئی پناہ نہیں قدم قدم پر پابندیاں ہیں کسی کے مال کی طرف ناجائز طریقه سے ہاتھ نہ بڑھاؤ . کسی نا محرم کی طرف آنکھ مت اٹھاؤ . اس لئے شہوت پرستوں کی نظروں میں اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب مبغوض نہیں. لیکن ارباب بصیرت اور شادیاں عفت و عصمت کے نزدیک یہی اسلام کے حق ہونے کی بڑی دلیل ہے.
أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ بَلْ جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ (70) وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ        (القرآن ٢٣/٧٠،٧١)
ترجمہ:" کیا عیاذاً بالله آپ کے متعلق یہ خیال ہے کہ آپ کو جنون ہوگیا . حاشا و کلا آپکو جنون کیسے ہوسکتا ہے آپ تو حق اور صداقت لے کر آئے ہیں . مجنون تو وہ ہے کہ جس کو حق سے نفرت ہو.  اصل وجہ یہ ہے کہ یہ دین ان کی نفسانی خواہشوں کے خلاف ہے جس کو خدا نے ذرا بھی عقل دی ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ اگر حق لوگوں کی نفسانی خواہشوں کے تابع ہو جائے تو آسمان اور زمین اور ان کے باشندے سب تباہ اور برباد ہو جائیں . بلکہ ہم نے تو انکی ہدایت کے لئے حکمت اور نصیحت کا پیام بھیجا ہے مگر یہ لوگ اپنی نصیحت سے روگردانی کرنے والے ہیں۔
واذا اتتک مذمتی من ناقص
فھی الشھادة لى بانى كامل
ترجمہ:" جب تیرے پاس کسی ناقص العقل کی طرف سے میری مذمت پہنچے تو سمجھ لے کہ یہی میرے کامل ہونے کی دلیل ہے."

اذا رضيت عني كرام عشيرتي
فلا زال غضبنا على لئامها
ترجمہ:" اگر شریف لوگ مجھ سے راضی ہیں تو پھر پرواہ نہیں خدا کرے یہ کمینے ہمیشہ مجھ سے ناراض ہی رہا کریں."
مکمل تحریر >>

اتوار، 24 نومبر، 2013

غلامی کا مسئلہ کیا اسلام میں قابل اعتراض ہے؟


غلامی کا مسئلہ کیا اسلام میں  قابل اعتراض ہے؟
جواب:-
      معاشرت میں اسلام کا یہ حکم ہے کہ اپنے غلاموں کی ستر خطائیں روز معاف کیا کرو اس سے زیادہ خطائیں ہوں تو کچھ سزا دو، بھلا غلاموں کے ساتھ یہ برتاؤ کوئی غیر مسلم کر سکتا ہے؟ غلام تو کجا اولاد کے ساتھ بھی کوئی ایسا برتاؤ نہیں کرسکتا، مگر افسوس ! باوجود اس قدر رعایت کے پھر بھی مخالفوں کو اسلام کے مسئلہ غلامی پر اعتراض ہے، میں کہتا ہوں کہ اسلام نے تو غلاموں کے ساتھ وہ برتاؤ کیا ہے کہ ان کے باب بھی انکے ساتھ ویسا نہیں کر سکتے تھے.
مسئلہ غلامی کی اصل:
      مسئلہ غلامی کی اصل یہ ہے کہ اس میں مخلوق کی جان بچائی گی ہے، کیونکہ جب ایک دشمن مسلمانوں کے مقابلے میں فوج کشی کرتا ہو اور اس کے ہزاروں لاکھوں آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں میں قید ہوں، تو اب ہمیں کوئی بتلا دے کہ ان قیدیوں کو کیا کرنا چاہیے؟
ایک صورت تو یہ ہے کہ ان سب کو رہا کردئیے جائے، اس کا حماقت ہونا ظاہرہے کہ دشمن کے ہزاروں لاکھوں کی تعداد کو پھر اپنے مقابلے کے لئے مستعد کردیا،
ایک صورت یہ ہے کہ سب کو فورا قتل کردیا جائے، اگر اسلام میں ایسا کیا جاتا تو مخالفین جتنا شور و غل مسئلہ غلامی پر کرتے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ اس وقت کرتے کہ دیکھئے کہ کیا سخت حکم ہے کہ قیدیوں کو فورا قتل کردیا گیا؟
 ایک صورت یہ ہے کہ سب کو کسی جیل خانے میں  بند کر دیا جائے  اور وہاں رکھ کر ان کو روٹی کپڑا دیا جائے، یہ صورت گو کہ آج کل کی بعض متمدن سلطنتوں میں پسندیدہ ہے مگر اس میں چند خرابیاں بھی ہیں، ایک یہ کہ اس سے سلطنت پر بڑا بار عظیم پڑتا ہے اور ان سے کمائی کرنا خود غرضی کی صورت ہے،پھر جیل خانے کی حفاظت کے لئے ایک خاص فوج مقرر کرنا پڑتی ہے، قیدیوں کی ضروریات کے لیے بہت سے آدمی ملازم رکھے جاتے ہیں . یہ سارا عملہ بے کار ہو جاتا ہے ، سلطنت کے کسی اور کام میں نہیں آسکتا قیدیوں ہی کی حفاظت کا ہو کر رہتا ہے.

جیل میں رکھ کر راحت پہنچانا
      پھر تجربہ شاہد ہے کہ جیل خانے میں رکھ کر آپ چاہے قیدیوں کو کتنی ہی راحت پہنچائیں ، ان کی ان کو کچھ قدر نہیں ہوتی کیونکہ آزادی سلب ہونے کا غیظ ان کو اس قدر ہوتا ہے کہ وہ آپکی ساری خاطر مدارات کو بے کار سمجھتے ہیں، تو سلطنت کا اتنا خرچ بھی ہوا اور سب بے سود کہ اس سے دشمن کی دشمنی میں کمی نہ آئے، پھر قید خانے میں ہزاروں لاکھوں قیدی ہوتے ہیں وہ سب کے سب علمی اور تمدنی ترقی سے بلکل محروم رہتے ہیں اور یہ سب بڑا ظلم ہے،
اسلام نے اس کے بجائے یہ حکم دیا کہ جتنے قیدی گرفتار ہوں سب لشکر والوں کو تقسیم کردو، ایک گھر میں ایک غلام کا خرچ معلوم بھی نہ ہوگا اور سلطنت بار عظیم سے بچ جائے گی ، پھر چونکہ ہر شخص کو اپنے قیدی سے خدمات لینے کا حق بھی ہے اس لئے وہ اسکو روٹی کپڑا جو کچھ دے گا ، اس پر گراں نہ ہوگا، وہ سمجھے گا کہ میں تنخواہ دے کر نوکر رکھتا  جب بھی خرچ ہوتا، اب اس سے خدمت لوں گا اور اسے معاوزہ میں روٹی کپڑا دوں گا، پھر چونکہ غلام کو چلنے پھرنے سیر و تفریح کرنے کی آزادی ہوتی ہے ، قید خانے میں بند نہیں ہوتا ، اس لئے اسکو اپنے آقا پر غیظ نہیں ہوتا، جو جیل خانہ میں کے قیدی کو ہوتا ہے اس حالت میں اگر آقا نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو اس کا احسان دل میں گھر کر لیتا ہے اور وہ اس کے گھر کو اپنا گھر ، اس کے گھر والوں کو اپنا عزیز سمجھنے لگاتا ہے. یہ سب باتیں ہی نہیں بلکہ واقعات ہیں، پھر اس صورت میں غلام علمی اور تمدنی ترقی بھی تو کرسکتا ہے، کیونکہ جب آقا غلام میں اتحاد ہو جاتا ہے تو آقا خود چاہتا ہے کہ میرا غلام مہذب و شائستہ ہو، وہ اس کو تعلیم بھی دلاتا ہے صنعت و حرفت بھی سکھاتا ہے ، چنانچہ اسلام میں صد ہا علماء زہاد ایسے ہوئے ہیں جو اصل میں موالی (آزاد کردہ غلام) تھے، غلاموں کے طبقہ نے تمام علوم میں ترقی حاصل کی، بلکہ غلاموں کو بعض دفعہ بادشاہت بھی نصیب ہوتی تھی.
مکمل تحریر >>

جمعہ، 22 نومبر، 2013

الله رب العزت کے وجود کے دلائل


بسم الله الرحمن الرحیم
وجود باری عز اسمہ
ابتداۓ آفرینش سے لے کر اس وقت تک عالم کے کسی خطے پر کوئی لحظہ اور لمحہ ایسا نہیں گزرا کے وہاں کے جن و انس اپنے پروردگار کو نہ جانتے ہوں اور اپنے لئے کسی خالق کا اقرار اور اعتراف نہ کرتے ہوں ہر زمانہ میں لاکھوں انسان ایسے گزرے ہیں اور اب بھی ہیں کہ جنہوں نے علم کا نام و نشان بھی نہیں سنا مگر یہ ضرور جانتے ہیں کہ ہمارا ایک خالق اور پروردگار ہے اور جب دنیا کے اسباب و وسائل سے مجبور اور مضطر ہو جاتے ہیں اس وقت خدا کو پکارتے ہیں. الله تعالى انکی مضطربانہ دوا کو سنتا ہے بڑے سے بڑا حادثہ دفعتا دور ہوجاتا ہے اور تمام مادی اور ظاہری اسباب و وسائل کا یک لخت خاتمہ ہوجاتا ہے. اور یک یک نہ امیدی کے بعد امید اور آرزو نظروں کے سامنے آجاتی ہے.
جیسا کہ الله تعالى نے فرمایا
أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ
(القرآن ٢٧/٦٢)
ترجمہ :"کون ہے کہ جو مضطر کی دعا کو قبول کرتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کرتا ہے."
اور اسی وجیہ سے کہ حق تعالى شانہ کی معرفت فطری ہے جو لوگوں کی فطرت اور جبلت مے مرکوز ہے. حق جل و علا ارشاد فرماتے ہیں
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
(القرآن ٣٠/٣٠)
ترجمہ:"اپنے چہرے کو الله کی عبادت کے لئے سیدھا کر ایک طرف ہوکر اور الله کی اس فطرت کو لازم پکڑ جس پر الله نے لوگوں کو پیدا کیا ہے الله کی بنائی ہوئی چیز میں تبدیلی ممکن نہیں یہی دین جو فطرت کے مطابق ہے ٹھیک دین ہے."
الغرض وجود باری عز شانہ کا اقرار بدیہی اور فطری امر ہے اور تمام بنی نوع انسان کا اجماعی مسلک ہے اسی وجیہ سے حضرات انبیاء علیھم السلام جا نصب العین ہمیشہ توحید کی دعوت رہی اور جن کو سرے ہی سے اپنے خالق میں شک پیش آیا. ان سے نہایت تعجب سے یہ خطب فرمایا.

قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
(القرآن ١٤/١٠)
ترجمہ: " ان کے رسولوں نے کہا کہ کیا تم کو الله کے بارے میں بھی کسی قسم کا کوئی شک و شبہ ہے کہ جو آسمانوں اور زمینوں کا بنانے والا ہے."
        حق تو یہ ہے کہ حق تعالى شانہ کا وجود آفتاب اور مہتاب سے بڑھ کر بدیہی ہے اور روشن ہے کسی دلیل اور برہان کا موہتاج نہیں بلکہ اسی کا وجود کائنات کے لئے دلیل اور برہان ہے لیکن مزید اطمینان کے لئے دلائل بھی ذکر کیے دیتے ہیں. وہ ھوا هذا
        کون شخص ہے کہ یہ نہ جانتا ہو کہ ایک زمانہ وہ تھا کے ہم پردۂ عدم میں مستور تھے اور عن قریب پھر ایک ایسا ہی زمانہ آنے والا ہے کہ اسی پردۂ عدم میں جا چھپیں گے۔ ہمارا وجود دو عدموں میں اس طرح گھرا ہوا ہے جس طرح نور زمین شب آئندہ کی دو ظلمتوں میں محصور ہے زمین پر نور کی آمد و رفت با آواز بلند کہ رہی ہے کہ یہ نور زمین کا ذاتی نہیں مستعار اور عطاء غیر ہے اگر یہ نور زمین کا ذاتی ہوتا تو کبھی زائل نہ ہوتا. پس اسی طرح موت و حیات کی کشمکش اور وجود کی آمد و رفت اس امر کی واضح دلیل ہے کہ کائنات کا وجود ذاتی نہیں ورنہ عدم اور زوال کو کبھی قبول نہیں کرتا. بلکہ جس طرح زمین کی روشنی آفتاب کا فیض ہے اور پانی کی گرمی آگ کا فیض ہے. اسی طرح ہمارا وجود بھی کسی ایسی ذات کا فیض اور عطیہ ہوگا کہ جس کا وجود اصلی اور خانہ زاد ہو اور وجود اس ذات کے لئے اس طرح لازم ہو جیسے آفتاب کے لئے نور اور آگ کے لئے حرارت اور چار کے لئے زوجیت اور تین کے لئے فردیت لازم ہے. یہ ناممکن ہے کہ آفتاب ہو اور نور نہ ہو، آگ ہو اور حرارت نہ ہو ، چار اور پانچ ہوں اور زوجیت اور فردیت نہ ہو. اسی موجود اصلی کو اہل اسلام الله تعالى اور واجب الوجود کہتے ہیں اس آیت میں اسی دلیل کی طرف اشارہ ہے.
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
(القرآن ٢/٢٨)
ترجمہ: " تم الله کا کیسے انکار کرتے ہو حالانکہ تم پہلے موجود نہ تھے پس خدا نے تم کو حیات عطا کی اور پھر تم کو فنا کردےگا."
        حکیم فرفوریوس کا مقولہ ہے کہ :
        "جو امور بداحت عقل سے ثابت ہیں منجملہ انکے ایک مسئلہ ثبوت صانع کا بھی ہے جتنے حق پسند حکماء گزرے ہیں وہ اس مسئلہ کی بداحت کے قائل ہیں اور جو لوگ ثبوت صانع  کی بداحت کے قائل نہیں وہ قبل ذکر نہیں اور نہ زمرہ حکماء مے شمار کیے جانے کے مستحق ہیں."
        علامہ احمد بن مسکویہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ:
                " حکماء مے سے کسی سے بھی یہ منقول نہیں کہ اس نے ثبوت صانع کا انکار کیا ہو اور نہ کسی نے اسکا انکار کیا کہ جو صفات کمال انسان اور بشر مے بقدر طاقت بشری پائی جاتی ہیں جیسے جود و کرم ، قدرت و حکمت وہ باری تعالى میں علی وجہ ال کمال پائی جاتی ہیں."
        میں کہتا ہوں کہ آج تک کسی عاقل اور سمجھدار نے وجود صانع (بنانے والے) کا انکار نہیں کیا اور جب کبھی کسی نادان نے وجود صانع کا انکار کیا تو عقلاء(عقلمدنوں) نے اس کو مہمل اور ساقط الاعتبار گردآنا، جو شخص عقلاء عالم کے متفقہ فیصلہ کا انکار کرے اسکو سن لینا چاہئے کہ وہ عقل سے بے بہرہ ہے.
        علامہ احمد بن مسکویہ رحمہ الله نے الفوز الاصغر میں وجود صانع پر ٢ دلیلیں ذکر فرمائی ہیں:
اول: یہ کہ ہر جسم طبعی کے لئے حرکت ضروری ہے کوئی جسم طبعی ایسا نہیں کہ جو متحرک نہ ہو اور ہر متحرک(حرکت کرنے والا) کے لئے ایک محرک (حرکت دینے والا) کا ہونا ضروری اور لازمی ہے کہ جس پر تمام حرکات کا سلسلہ ختم ہوتا ہو ، وہی متحرک اول ان تمام اجسام و اعیان کا خالق اور صانع(بنانے والا) ہوگا. اور چونکہ یہ امر بدیہی(روشن/ظاہر) ہے کہ محرک متحرک کے سوا اور علاوہ ہونا چاہئے اس لئے یہ ثابت ہو گیا کہ وہ محرک اول متحرک نہیں ہوسکتا . کیو کہ محرک اولا کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ حرکت سے پاک اور منزہ ہو ورنہ اگر محرک نکل آیا تو جس کو محرک اول فرض کیا تھا وو محرک اول نہ رہاہ اسکی اولیت جاتی رہی . نیز اسے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ محرک اوک جسم نہیں ہوسکتا . اسلئے کہ ہر جسم کے لئے متحرک ہونا لازمی اور ضروری ہے.

دوم: یہ کہ عالم کا تغیر اور تبدل ، فناء اور زوال اس امر کا شاہد ہے کہ عالم کی کسی شئے کا وجود بالذات نہیں، جس شیے کا بھی وجود ہے وہ بالعرض ہی ہے. اور تمام حکماء کا اس پر اتفاق ہے کہ جو چیز بھی کسی شئے میں بالعرض پائی جائے گی وہ کسی شئے میں بالذات ضرور پائی جائے گی. کیونکہ جو شئے عارضی ہوتی ہے وہ کسی کا اثر ہوتی ہے اور ہر اثر حرکت ہے لہذا ضروری ہوا کہ ان تمام اثر اور حرکات کا سلسلہ ایسے موثر حقیقی اور محرک اول پر جاکر ختم ہو کہ جو کسی کا اثر نہ قبول کرتا ہو بلکہ وہی سب میں موثر ہو اور کوئی اثر اور کوئی متاثر اس موثر حقیقی کے حیطہ(احاطہ) تاثیر سے باہر نہ ہو جو بھی موجود ہو وہ اسی کی فیض تاثیر سے وجود میں آیا ہو.
        سب جانتے ہیں کہ اعراض کا وجود ذاتی  نہیں بلکہ جواہر اور اجسام کے سہارے سے ہے اگر اعراض کا جواہر سے تعلق منقطع ہو جائے تو تمام اعراض اسی وقت معدوم اور فنا ہو جاینگے ایک لمحہ کے لئے باقی نہ رہ سکتے. کیونکہ اعراض کا وجود عرضی یعنی ناقص اور ضعیف ہے جواہر کے تابع ہے مگر اعراض کے معدوم ہونے سے جواہر کا معدوم لازم نہیں.
        پاس جس طرح جواہر کے مقابلے میں اعراض کا وجود محض عارضی ہے . اسی طرح واجب الوجود کے مقابلے میں جواہر اور اجسام کے وجود کو سمجھ کہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا. اگر ایک لمحہ کے لئے اس بے نیاز واجب الوجود کے فیض تاثیر کو ان جواہر اور اجسام سے منقطع فرض کر لیا جائے تو یک لخت تمام کے تمام معدوم ہوجائیں اور فنا کے گھٹ اتر جائیں کسی جوہر اور جسم کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے اسی کی فیض تاثیر سے انکا وجود قیام ہے.
        جب یہ ثابت ہوگیا کہ کائنات میں جو بھی وجود ہے وو اسی کا عنایات کیا ہوا ہے تو یہ بھی ثابت ہوا کہ وجود اس مبدا فیاض کا ذاتی ہوگا کہ جب اس کی ذات کا تصور کیا جائے تو ساتھ ہی ساتھ اس کے وجود کا بھی تصور ہوتا ہو اسی وجہ سے اسی کو واجب الوجود کہتے ہیں.
مکمل تحریر >>

الله رب العزت کے وجود کے دلائل ٢


        کون شخص ہے کہ یہ نہ جانتا ہو کہ ایک زمانہ وہ تھا کے ہم پردۂ عدم میں مستور تھے اور عن قریب پھر ایک ایسا ہی زمانہ آنے والا ہے کہ اسی پردۂ عدم میں جا چھپیں گے۔ ہمارا وجود دو عدموں میں اس طرح گھرا ہوا ہے جس طرح نور زمین شب آئندہ کی دو ظلمتوں میں محصور ہے زمین پر نور کی آمد و رفت با آواز بلند کہ رہی ہے کہ یہ نور زمین کا ذاتی نہیں مستعار اور عطاء غیر ہے اگر یہ نور زمین کا ذاتی ہوتا تو کبھی زائل نہ ہوتا. پس اسی طرح موت و حیات کی کشمکش اور وجود کی آمد و رفت اس امر کی واضح دلیل ہے کہ کائنات کا وجود ذاتی نہیں ورنہ عدم اور زوال کو کبھی قبول نہیں کرتا. بلکہ جس طرح زمین کی روشنی آفتاب کا فیض ہے اور پانی کی گرمی آگ کا فیض ہے. اسی طرح ہمارا وجود بھی کسی ایسی ذات کا فیض اور عطیہ ہوگا کہ جس کا وجود اصلی اور خانہ زاد ہو اور وجود اس ذات کے لئے اس طرح لازم ہو جیسے آفتاب کے لئے نور اور آگ کے لئے حرارت اور چار کے لئے زوجیت اور تین کے لئے فردیت لازم ہے. یہ ناممکن ہے کہ آفتاب ہو اور نور نہ ہو، آگ ہو اور حرارت نہ ہو ، چار اور پانچ ہوں اور زوجیت اور فردیت نہ ہو. اسی موجود اصلی کو اہل اسلام الله تعالى اور واجب الوجود کہتے ہیں اس آیت میں اسی دلیل کی طرف اشارہ ہے.
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
(القرآن ٢/٢٨)
ترجمہ: " تم الله کا کیسے انکار کرتے ہو حالانکہ تم پہلے موجود نہ تھے پس خدا نے تم کو حیات عطا کی اور پھر تم کو فنا کردےگا."
        حکیم فرفوریوس کا مقولہ ہے کہ :
        "جو امور بداحت عقل سے ثابت ہیں منجملہ انکے ایک مسئلہ ثبوت صانع کا بھی ہے جتنے حق پسند حکماء گزرے ہیں وہ اس مسئلہ کی بداحت کے قائل ہیں اور جو لوگ ثبوت صانع  کی بداحت کے قائل نہیں وہ قبل ذکر نہیں اور نہ زمرہ حکماء مے شمار کیے جانے کے مستحق ہیں."
        علامہ احمد بن مسکویہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ:
                " حکماء مے سے کسی سے بھی یہ منقول نہیں کہ اس نے ثبوت صانع کا انکار کیا ہو اور نہ کسی نے اسکا انکار کیا کہ جو صفات کمال انسان اور بشر مے بقدر طاقت بشری پائی جاتی ہیں جیسے جود و کرم ، قدرت و حکمت وہ باری تعالى میں علی وجہ ال کمال پائی جاتی ہیں."
        میں کہتا ہوں کہ آج تک کسی عاقل اور سمجھدار نے وجود صانع (بنانے والے) کا انکار نہیں کیا اور جب کبھی کسی نادان نے وجود صانع کا انکار کیا تو عقلاء(عقلمدنوں) نے اس کو مہمل اور ساقط الاعتبار گردآنا، جو شخص عقلاء عالم کے متفقہ فیصلہ کا انکار کرے اسکو سن لینا چاہئے کہ وہ عقل سے بے بہرہ ہے.
مکمل تحریر >>