Pages

منگل، 11 نومبر، 2014

عیسیٰ علیہ السلام کا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ کا معازنہ اور عیسائیت کے اعتراض کا جواب

اعتراض نمبر ۳: قرآن کریم اس بات پر شاہد ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کرتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ قرآن میں اور نہ احادیث میں مردوں کے زندہ کرنے کا تذکرہ ہے؟
جواب: اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ مادر زاد نابیناؤں کو تندرست اور مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس وجہ سے دیا گیا کہ اس زمانے میں طب کو بہت عروج تھا اور خداوند عالم کی یہ سنت رہی ہے کہ جس زمانے میں جو چیز سب سے زائد معیار ترقی اور عروج پر ہوتی اسی نوع کا انبیاء کو معجزہ دیا جاتا ہے تاکہ دنیا دیکھ لے کہ یہ کمال طاقت بشریہ سے بالا و برتر ہے اور اس کا ظہور صرف قدرت خداوندی کی طرف سے ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادوگری فن شباب پر تھا تو  حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہ معجزے دئے گئے جن کے سامنے بڑے بڑے جادوگر عاجز رہے اور اس کو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کے سامنے اطاعت کی گردنیں جھکادیں۔ اس چیز کو ملحوظ رکھتے ہوئے سمجھ لیجئے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فصاحت و بلاغت کا زور تھا۔ تو اس مناسبت سے آپ کو قرآن کا معجزہ دیا گیا جس کی فصاحت و بلاغت نے عرب کے مایئہ ناز شعراء کو عاجز کردیا نیز اگر کوئی ایک معجزہ کسی پیغمبر کو دیا گیا اور کسی دوسرے کو نہیں دیا گیا تو یہ بات اس دوسرے پیغمبر کی تنقیص کی دلیل نہیں۔
     بہرحال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اس قدر عظیم المرتبت و کامل ہیں کہ ان کے معجزات کی نظیر و مثیل دنیا پیش نہ کرسکی جیسے قرآن کریم وغیرہ میں اسی طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک درخت کو آواز دی تو اکھڑ کر آپ کے سامنے آتا ہے اور تین مرتبہ اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ کی گواھی دیتا ہے جب کہ ایک شخص نے آپ سے پر زُور لفظوں میں یہ مطالبہ کیا کہ آپ کی رسالت کی گواہی کون دے سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ درخت اور اس کو بلایا اور اس نے گواھی دی۔
     اسی طرح معجزہ معراج کہ ایک رات میں مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے ساتویں آسمانوں پر تشریف لے جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کے اشارے سے چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا یہ تمام واقعات جو قرآن سے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں کسی طرح بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات سے کم نہیں بلکہ بڑھ کر ہیں کیوں کہ یہ باتیں ایسے طور پر واقع ہو رہی ہیں کہ ان کی نوع میں عقلاً اس کی ذرہ بھر بھی صلاحیت نہ تھی۔ مردوں کو زندہ کرنے کے واقعات میں کوئی سن کر یہ کہہ بھی سکتا ہے کہ جس مردہ کو دفن کیا تھا مرا ہی نہ تھا بلکہ اس کو سکتہ کی بیماری تھی۔(لیکن یہ بات واضح رہے کہ اس سے احقر عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کا منکر نہیں بلاکہ اس سے ثابت یہ کرنا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ اور ان سے بہتر اور افضل ہے) وہ دور ہوگئی لیکن سنگریزوں کی تسبیح۔ پتھروں کا سلام، انگلیوں سے پانی کے چشموں کا جاری ہونا اور درخت کے اپنی جگہ سے اکھڑ کر روبرو حاضر ہونے کے بعد گواہی دینے کی عقلاً کیا تاویل ممکن ہے۔
     دوسری بات یہ کہ جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام بعثت دنیا میں ہوئی یعنی آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ معجزہ دیا گیا، مگر آقائے نامدار تاجدار بطحیٰ احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ تمام کے تمام معجزات ایک ہی ذات کے اندر موجود تھے، چنانچہ کسی فارسی شاعر نی کیا ہی خوب کہا ہے۔
حسن یوسف دم عیسیٰ یدبیضاداری

آنچہ خوباں ہمہ دراند تو تنہاداری
مکمل تحریر >>

اتوار، 9 نومبر، 2014

کیا علماء ترقی سے روکتے ہیں؟

کیا علماء ترقی سے روکتے ہیں؟
جواب ۱: لوگ علماء کو ترقی سے مانع کہتے ہیں آج میں اس الزام کو دفع کرنا چاہتا ہوں اور اس وقت  میں ترقی کی ضرورت پر بیان کروں گا۔ اس پر جینٹل مین(gentle men) چونکے کہ یہ ملّا آدمی اور ترقی کا بیان۔ میں نے کہا آپ تو ترقی کو صرف عقلی ضروری کہتے ہیں اور میں اسے شرعی فرض کہتا ہوں، اس پر اور بھی حیرت ہوئی، میں نے کہا حق تعالیٰ فرماتے ہیں  " وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ"
یعنی ہر قوم کے لئے ایک جہت قبلہ مقرر ہے جس کی طرف وہ منھ کرتی ہے، پس ایک دوسرے پر سبقت کرو۔
اس آیت میں حق تعالیٰ نے ہم کو استبقاق کا حکم دیا جس کے معنی ایک دوسرے پر سبقت کرنے کے ہیں اور یہی حاصل ہے ترقی کا تو ترقی کی ضرورت قرآن سے ثابت ہے۔ بلکہ "استبقوا"  صیغہ امر ہے جس کا مقتضی وجوب ہےتو یوں کہنا چاہئے کہ قرآن میں ترقی کو واجب و فرض کیا گیا ہے تو اب جو لوگ علماء کو ترقی سے مانع (روکنے والا) کہتے ہیں وہ ان پر کتنا بڑا افترا کرتے ہیں۔ بھلا جس چیز کا قرآن میں حکم ہے ، علماء کی کیا مجال ہے کہ اس سے منع کر سکیں ، پس ترقی کا ضروری ہونا تو متفق علیہ ہے البتہ اس کے طریقہ میں اختلاف ہے ۔ جینٹل مین(gentle men) کہتے ہیں کہ جس طرح ہم کہیں اسی طرح ترقی کرو اور علماء کہتے ہیں کہ جس طرح قرآن کہے اسی طرح ترقی کرو۔ سو قرآن میں "فاستبقوا" کے ساتھ "الخیرات" کی بھی قید ہے جس کا حاصل یہ ہوا کہ نیک کاموں میں ترقی کے آپ خواہاں ہیں وہ  ترقی فی الخیر ہے تو میں اس کا ذمہ لیتا ہوں کہ علماء آپ کو اس ترقی سے منع نہیں کریں اور اگر ترقی فی الشر ہے تو اس کا مطلوب نہ ہونا بلکہ مذموم نہ ہونا تمام عقلاء کے نزدیک مسلم ہے ورنہ پھر ایک ڈاکو کو بھی یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ مجھے ڈاکہ سے کیوں منع کیا جاتا ہے میں تو ترقی کا طالب ہوں۔ بتالیئے اسے کیا جواب دیں گے ظاہر ہے کہ اس سے یہی کہا جائے گا کہ تیری یہ ترقی ترقیِ محمود نہیں بلکہ ترقیِ مذموم ہے جہ کہ برے طریقے سے حاصل کی جاتی ہے۔
        معلوم ہوا کہ ترقی مطلقاً مطلوب نہیں بلکہ وہی مطلوب ہے جہ محمود ہو مذموم نہ ہو۔ پس اب یا تو آپ ثابت کردیں کہ جس ترقی کے آپ طالب ہیں وہ محمود ہے مذموم نہیں یا ہم ثابت کردیں کہ ترقی محمود یہ ہے جس کی ہم تعلیم دے رہے ہیں اور یہ ترقی مذموم ہے جس کی تعلیم آپ دے رہے ہیں۔ اس تقریر سے بہت جلد سمجھ گئے اور اقرار کر لیا کہ واقعی علماء کو ترقی سے اختلاف نہیں۔ بلکہ اس کے طریقِ تحصیل سے اختلاف ہے کیوں کہ ان طرق(راستوں) نے خلاف شرع ہونے کی وجہ سے اس ترقی کو فی الشر کا مصداق بنادیا ہے۔ غرض دوسری قوموں کی ترقی کو دیکھ کر مسلمانوں کے منہ میں پانی بھر آتا ہے اور وہ اس کی ہر حالت کو ترقی میں داخل سمجھ کر اختیار کرتے جاتے ہیں کبھی ان کی صورت و وضع کو اختیار کرتے ہیں کہ شاید اس کو ترقی میں دخل ہو کبھی عورتوں کے پردہ کو اٹھانا چاہتے ہیں کہ یہی ترقی سے مانع ہے۔ اگر عورتیں آزاد ہوں گی تو علوم صنعت و حرفت سیکھ کر خود بھی ترقی کریں گی اور اولاد کو بھی ترقی یافتہ اٹھائیں گی۔
        ایک صاحب نے میرے سامنے یہی دلیل بیان کی تھی میں نے کہا کہ مسلمانوں میں صرف شرفاء کی عورتیں پردہ نشیں ہیں جن کی تعداد ہندوستان میں بہت کم ہے ، زیادہ تعداد تو چھوٹی قوموں کی ہے اور ان میں پردہ کا ہمیشہ سے رواج نہیں ہے اگر بے پردگی کو ترقی میں کچھ دخل ہے تو ان قوموں نے کیوں نہ کرلی ۔ بس اس کا جواب کچھ نہ تھا۔ وہ میرا منہ تکنے لگے۔(العبرۃ بذبح البقرہ  ص 45)


مکمل تحریر >>

ہفتہ، 8 نومبر، 2014

عیسیٰ علیہ السلام کو گود میں نبوت ملی اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو چالس سال میں تو عیسیٰ علیہ السلام افضل ہوئے کا جواب

اعتراض نمبر ۲:- حضرت مسیح علیہ السلام کو گود میں کتاب دی گئی جیسا کہ قرآن کریم ناظق ہے  إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ مگر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال بعد خداوند قدوس نے کتاب دی۔

جواب: اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت اور کتاب و انجیل ماں کی گود میں نہیں دی گئی البتہ گفتگو بے شک ماں کی گود میں انہوں نے کی جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ماں ہی کی گود میں کتاب و نبوت دونوں چیزیں شیرخوارگی کی حالت میں دے دی گئیں تو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وجہ سے فضیلت لازم نہیں آتی، عقلی اعتبار سے اس سے بڑھ کر کمال تو یہ ہے کہ کسی ایک شخص کو چالیس برس کی طویل مدت تک اسی طرح دیکھتی رہی کہ نہ وہ ایک حرف  لکھ سکتا ہے اور نہ پڑھ سکتا ہے اور پھر ناگہاں اسی کی زباں سے علوم و ہدایت اور معارف و حقائق کے سمندر جاری ہوجائیں اور وہ کلام جو دنیا کو اپنے مقابلے کا اعلان (چیلنج) کرے اور تمام دنیا اس کے مقابلے سے عاجز رہے۔ عرب کے فصیح و بلیغ اس جیسی ایک بھی سطر پیش نہ کرسکے یقیناً یہ کلام ماں کی گود میں کلام کرنے سے بڑھ کر ہے پھر یہ بات بھی ثابت ہے کہ مسیح علیہ السلام کی طرح ماں کی گود میں دو اور بچوں نے بھی کلام کیا ہے حضرت ابو  ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ماں کی گود میں سوائے تین بچوں کے اور کوئی نہیں بولا۔ ایک حضرت عیسی علیہ السلام، دوسرا وہ بچہ جو جریج کے زمانے میں تھا اور تیسرا ایک اور بچہ واقعہ کی تفصیل کے لئے صحیح مسلم کی مراجعت کی جائے۔ جریج عابد و زاہد شخص تھا وہ اپنی ماں کی غلط بد دعاء کی وجہ سے ایک فتنہ میں مبتلا ہوا کہ ایک بدکار عورت اس کے گرجا کے قریب پناہ لینے والے چرواہے سے زنا کر کے حاملہ ہوئی اور ولادت پر یہ کہہ دیا کہ یہ جریج سے پیدا ہوا پس اس نومولود بچے نے لوگوں کے سامنے گوایہ دی کہ میرا باپ تو چرواہا ہے ، دوسرا ایک اور بچہ جو ماں کی گود میں دودھ پی رہا تھا اس کی ماں نے ایک شہسوار کو گزرتے دیکھ کر تمنا کی کہ اے اللہ تعالیٰ تو میرے بیٹے کو ایسا ہی بنادے، تو اس بچے نے کہا کہ اے پروردگار تو مجھے ایسا نہ بنا۔(صحیح مسلم ج۲،ص۳۱۳)
پس معلوم ہوگیا کہ ماں کی گود میں بات کرنا صرف عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت نہیں یہ چیزیں تو اکثر بچوں کے لئے بھی قدرت خداوندی نے ظاہر کی ہیں۔

     بہرحال دوسری تردید یہ ہے کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ عرب کے اندر ایک یہودی گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے جو کہ صرف ڈیڑھ سال کی عمر میں نماز اور دیگر عبادات کا پابند ہوگیا اور کچھ یہ دنوں کے بعد بلا جھجھک عربی میں تقریریں کرتا ہے اور اسلام پر کئے جانے والے اشکالات کے جوابات دیتا ہے۔ اب بھلا بتائیں کہ کیا یہ لڑکا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فوقیت لے جائے گا؟ ہرگز نہیں پس اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت سے فوقیت نہیں لے جاسکتے۔
مکمل تحریر >>

جمعہ، 7 نومبر، 2014

رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک وفات کے وقت پر اعتراض کا جواب

منکرینِ حدیث کے اعتراضات کا جائزہ ۱
منکرین حدیث امت کو سرکارِ دوعالم ﷺ کی احادیث مبارکہ اور آپ ﷺ کی اتباع سے -جو کہ قرآن مجید کا حکم ہے- دور کر کے نفس کی اتباع میں لانے کے لئے احادیث کا اپنی طرف سے مطلب بیان کرنا اور ان میں تعارض بتا کر ان سے امت کو دور کرنے کی ناکام سازش میں لگے ہوئے ہیں۔
ان کی اس سازشی اعتراضات میں سے ایک اعتراض کا جواب دینے کی ہم نے کوشش کی ہے، ممکن ہے کسی حق پسند کو سمجھ آجائے اور وہ اپنے باطل عقائد سے توبہ کرلے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی ﷺ کو اس لئے بھیجا کہ ان کی اتباع کی جائے اور ان کو اس لئے بھی بھیجا کہ وہ آیات تلاوت فرمائیں اور لوگوں کا تزکیہ کریں اور ان کو قرآن ہ حکمت کی باتیں بتائیں جیسا کہ یہ بات قرآن کریم میں موجود ہے (دیکھئے سورہ الجمعہ آیت نمبر ۲)
اب یہی حکمت کی باتیں ہمیں احادثِ مبارکہ سے ملتی ہے، یہی احادیثِ مبارکہ ہے جن سے ہمیں قرآن کی تشریح و تفسیر ملتی ہے۔
خیر اعتراض اور اس کے جواب سے پہلے ایک بات یہ سمجھ لیں اور آپ سب خود اپنے اپنے علاقہ میں ایسا کرتے ہوں گے۔
کسی عدد کو بتانے کے لئے کبھی تو پورہ بتاتے ہیں اور کبھی اس کو دھائیوں میں بتاتے ہیں مثلاً
کسی چیز کو آپ نے ۳۵۳۵ میں خریدا ہو، تو کسی کے پوچھنے پر تو یہ کہتے ہیں کہ بھائی میں نے اس کو ساڑھے تین ہزار میں خریدا ہے، اسی طرح کبھی کسی کو پورا عدد بتاتے ہیں کہ میں نے اس کو تین ہزار پانچ سو پینتیس میں خریدا وغیرہ وغیرہ۔
اب آئیے منکرین حدیث کا اعتراض دیکھتے ہیں۔
منکر حدیث صحیح بخاری پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
"اس میں ایک روایت میں حضور ﷺ کی عمر  63 سال بتائی ہے اور ایک میں 60 سال۔"
اس اعتراض میں کچھ دم نہیں اصل میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ایک روایت میں فرمایا
«تُوُفِّيَ، وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ»
آپ ﷺ کی ترسٹھ برس کی عمر میں وفات ہوئی(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب کم سن رسول ﷺ۔۔۔ 2348، صحیح بخاری  کتاب المناقب باب وفاۃ النبی ﷺ 3536 عن عائشۃ رضی اللہ عنہا)

اور دوسری روایت میں فرمایا
تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً
آپ ﷺ کو ساٹھ سال کے سرے  پر اللہ تعالیٰ نے وفات دی۔(کتاب اللباس باب الجعد حدیث 5900)

آپ نے جو اوپر مثال سمجھی کہ کبھی ہم دہائیوں میں بات کہتے ہیں اور کبھی تفصیل سے دہائیوں کے ساتھ آنے اور پائی بھی ذکر کرتے ہیں۔
اور آپ روایت کے الفاظ اگر دیکھیں گے تو اس میں بھی وضاحت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ صرف 60 سال نہیں بلکہ "علی راس" کا لفظ استعمال فرمائے ہے یعنی 60 سال کے سرے پر اور دہائی کے اوپر کے عدد کو عرب لوگ کبھی واضح کرتے تھے کبھی حذف کرتے تھے جیسا کہ ہم بھی کرتے ہیں۔ تو اس میں شرعاً، عقلاً اور عرفاً  کوئی خرابی نہیں ہے، بس اعتراض کرنے والے کے دماغ میں فطور ہے۔
آنکھیں اگر ہیں بند تو پھر دن بھی رات ہے
اس میں بھلا قصور کیا ہے آفتا ب کا
آخر میں ایک گذارش یہ ہے کہ اگر کوئی دہریہ قرآن پر اعتراض کریگا تو کیا آپ قرآن چھوڑ دو گے؟؟؟
نہیں نا، تو پھر ان جیسے اعتراض اگر آپ کے سامنے آئیں تو علماء حق سے رجوع ہوں ان شاء اللہ تشفی بخش جواب ملے گا۔
اللہ پاک ہم کو قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور باطل کے مکر و فریب سے ہماری اور پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔

آمین یا رب العالمین۔
مکمل تحریر >>

اعتراض قرآن میں عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ذکر ہے اور نبی کریم ﷺ کی والدہ کا ذکر نہیں

عیسائیت کے اعتراضات کے جوابات ۱
اعتراض نمبر ۱۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ کو قرآن شریف نے صدیقہ کہا ہے اور ان کی شان میں  وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ بیان کر کے بتا دیا کہ ان کو تمام جہاں کی عورتوں پر فضیلت دی ہے اس کے بر خلاف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا قرآن کریم میں کوئی ذکر نہیں آیا؟


جواب: بیشک قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ذکر کیا اور ان کو صدیقہ کہا ہے اور آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ کا ذکر قرآن میں نہین۔ لیکن اس سے مسیح علیہ السلام کی حضور ﷺ پر افضلیت لازم نہیں آتی حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ کے ذکر کی وجہ تو یہ ہے کہ یہود ان پر بہتان لگاتے تھے اس بناء پر ان کی عفت و پاکدامنی کا ذکر کیا گیا۔ اس کے برخلاف حضور ﷺ کی والدہ کے بارے میں کسی دشمن نے بھی ایک حرف بدگمانی کا نہیں لگایا تھا اسی وجہ سے ان کے ذکر کی ضرورت نہ تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا خاص اہتمام سے ذکر کیا برخلاف دوسرے انبیاء علیہم السلام کے ان کی ولادت کا مسئلہ کسی اعتراض یا شبہ کا محل نہ تھا اس لئے قرآن  نے اس سے کوئی تعرض نہیں کیا۔
مکمل تحریر >>

جمعرات، 6 نومبر، 2014

مذہب اسلام

مذہب  اسلام
مذہب دنیا میں بہت ہیں مگر ایسا مذہب جو ہر بات پر دلیل اور برہان پیش کرتا ہو اور بے دلیل باتوں کا رد کرتا ہو اور جن کو اپنے آغوش میں  آنے کی دعوت دیتا ہو سب سے پہلے ان کو تفکّر اور تدبّر کا حکم دیتا ہو کہ مجھ کو قبول کرنے سے پہلے میری تعلیمات کو عقل اور برہان کی کسوٹی پر پرکھ لو اور خوب سوچ لو اور سمجھ لو جب تمہارا قلب مطمئن ہوجائے اس وقت اس دعوت کو قبول کرو.
كما قال تعالى:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا                                    (القران ٤/١٧٤)
ترجمہ: " اے لوگو! بلاشبہ الله کی طرف سے تمہارے پاس ایک دلیل آئی ہے اور ہم نے تمہاری ہدایت کیلئے ایک نہایت چمکتا ہوا نور اتارا ہے."
كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ  (القرآن ٢/٢٤٢)
ترجمہ:" بیان کرتا ہے الله تعالیٰ اپنی نشانیوں کو تاکے تم سمجھو."
كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ (القرآن ٢/٢١٩)
ترجمہ:" اسی طرح الله تعالیٰ تمہارے لئے اپنی آیتوں کو بیان کرتا ہے تاکہ تم غور اور فکر کرو."
اور اپنے مخالفین سے بھی دلیل اور برہان کا مطالبہ کرتا ہے.
کما قال تعالیٰ:
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (القرآن ٢/١١١)
ترجمہ:" آپ ان سے کہ دیجیے کہ اپنے دعوے پر دلیل لاؤ اگر سچے ہو."
إِنْ عِنْدَكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِهَذَا أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
(القرآن ١٠/٦٨)
ترجمہ:" اس دعوے پر تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں کیا الله پر ایسی بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں."

ایسا مذہب صرف اور صرف مذہب اسلام ہے.
قرآن کریم میں اس قسم کی آیتیں بہت بکثرت موجود ہیں لہذا یہ کہنا کے اسلام ایسا مذہب ہے کے جو اپنی باتوں کو بے دلیل منوانا چاہتا ہے ایک کھلا ہوا بہتان ہے.
ہر مذہب میں کچھ اصول ہوتے ہیں اور کچھ فروع، اصول کم ہوتے ہیں اور فروع زیادہ انکا فرداَ فرداَ سمجھانا دشوار ہے بلکہ تطویل لا طائل اور بیکار ہے، اصول سمجھ لینے کے بعد فروع کا سمجھنا دشوار نہیں اس لئے الله تعالیٰ کی توفیق سے اس ناچیز کو یہ خیال ہوا کہ اصول اسلام پر ایک مختصر اور جامع تحریر لکھ دی جائے۔
     


مکمل تحریر >>

ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

عیسائیت کے اعتراضات کے جوابات سے قبل یہ ضرور پڑہیں

اعتراضات کے جوابات ملاحظہ کرنے سے قبل بطور مقدمہ کے کچھ باتیں سمجھ لیں پس ہم عیسائیوں سے دریافت کرتے ہیں کہ مذکورہ سوالات (جو ان لوگوں نے قرآن کے حوالہ سے کئے ہیں) کے ضمن میں جو تمام فضائل مسیح علیہ السلام  کا ذکر موجود ہے وہ کہاں سے ثابت ہے؟ عیسائی یہی کہیں گے کہ قرآن کریم سے ثابت ہے لہذا یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ ان سب فضیلتوں کی نسبت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ہے اور انہی کے واسطے سے مسیح  علیہ السلام  ابن مریم   کے یہ کمالات معلوم ہوئے ۔ پس یہ بات کالشمس علی نصف النہار ہوگئی کہ مسیح ابن مریم کے فضائل کا سبب تاجدار کونین احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم محسن نہ قرار پائے بلکہ جملہ انبیاء  کرام علیہم السلام کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم محسن ٹھہرے اور ظاہر ہے کہ محسن اس سے افضل ہے جس پر احسان کیا جارہا ہے۔ پس گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسیح علیہ السلام پر افضلیت رکھتے ہیں۔ اسی طریقہ سے حضرت مسیح علیہ السلام کے کمالات و کرامات جو عیاں ہوئے ہیں وہ دراصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت اور عظمت کی وجہ سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ باری تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے کمالات و کرامات کا اظہار فرمایا اور یہ بات بھی محقق ہے کہ کسی کے کمالات و کرامات کا اظہار خود اس ظاہر کرنے والے کے کمال کی دلیل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کے ذریعہ حضرت مسیح علیہ السلام ابن مریم  پر ہزاروں کئے جانے والے اشکالات کے جوابات دے دئے چوں کے مخالفین کبھی تو مریمؓ پر غلط تہمت لگاتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام کیسے اور کس طرح وجود میں آئے اسی طرح کے سوالات کئے جاتے تھے پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قرآن کریم کے ذریعہ ان تمام شبہات اور اشکالات کے مسکت جوابات دے دئے۔

بہر حال قرآن کریم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کافی احسانات ہیں مگر افسوس صد افسوس ان مخالفین پر ہے کہ ان تمام احسانات کو بھلا دیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا درجہ دیکر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے احکامات کو ٹھکرا دیا۔
مکمل تحریر >>

جمعرات، 23 اکتوبر، 2014

منکرین حدیث اور صحیح بخاری

منکرین حدیث کے وسوسوں کا جواب
الف)جب تک بخاری نہیں تھی تم حدیث کو ماننے والے نماز کس طرح پڑھتے تھے؟
جواب: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سیکھا۔ اور ان میں سے بہت سے صحابہ حدیث لکھا بھی کرتے تھے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بھی حدیث لکھا کرتے تھے جس کی وضاحت صحیح بخاری میں ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کی زبانی موجود ہے۔
اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی تمام روایات کو ان کے شاگرد نے لکھ کر جمع کیا ہے۔
اور بھی تفصیل ہے جو اپ تدوین حدیث کے موضوع پر کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔
اور ان جاہلوں کو صرف بخاری پتا ہے حالنکہ امام بخاری سے پھلے بھی بہت سی حدیث کی کتابین وجود میں آگئی تھی اور فقھاء نے فقھی مسائل بھی احادیث سے مستنبط کر کے نکال دیے تھے۔
حدیث کی کتابوں میں مشہور امام مالکؒ کی مؤطا ہے اور امام ابو یوسف اور امام محمد کی کتاب الآثار ہے، اسی طرح امام شافعیؒ کی کتاب الام ہے، امام احمد کی مسند احمد ہے۔ اور بھی بہت سی کتابیں موجود ہیں۔
میرا سوال ان منکرینِ حدیث سے یہ ہے کت تم لوگ نماز کس طرح پڑھتے ہو۔
کتنی رکعت پڑھتے ہو۔؟
کتنی نمازیں پڑھتے ہو۔؟
فرض اور سنت کا کوئی تصور ہے کہ نہیں تمھارے پاس۔؟

ب)منکرین حدیث کا الزام کے ہم نے بخاری کو قرآن کا درجہ دیا ہے۔
حالانکہ ہمارے اصول کی کتابوں میں یہ بات واضح الفاظ میں لکھی ہوئی ہے
اصح كتب بعد كتاب الله البخاري
یعنی قرآن کریم کے بعد سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری ہے۔
مکمل تحریر >>

ہفتہ، 4 اکتوبر، 2014

منکرینِ حدیث سے دس سوالات

منکرینِ حدیث سے دس سوالات


اسلام مکمل دین ہے۔ منکرینِ حدیث سے چند سوالات
قرآن مجید رہتی دنیا تک ہمیشہ کے لیے دین اسلام کے کامل ہونے کا اعلان فرمایا ہے، چنانچہ سورہ مائدہ میں ارشاد ہے
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمھارے دین کو کامل کردیا اور میں نے تم پر اپنا انعام پورا کردیا، اور میں نے تمہارے  لیے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کرلیا، (سورہ المائدہ 5 آیت 3)
      اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ دین اسلام کامل دین ہے، ہم منکرینِ حدیث سے سوال کرتے ہیں کہ جب دین کامل ہے اور تمہارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول فعل حجت نہیں ہے( جسے حدیث کہتے ہیں) تو تم پورا دین قرآن سے ثابت کرو۔
1.قرآن مجید میں نماز کا حکم ہے، بتاؤ قرآن کی کون سی آیت میں نماز کی رکعتوں کی تعداد بتائی ہے، اور رکوع اور سجدہ میں پڑھنے کو کیا بتایا ہے، نماز میں نظر کہاں رہے، ہاتھ کہاں رہیں یہ سب قرآن سے ثابت کریں۔
2. اسی طرح قرآن مجید میں جگہ جگہ زکوٰۃ دینے کا ذکر ہے، زکوٰۃ کتنی فرض ہے؟ کس مال میں فرض ہے؟ کتنے کتنے دنوں یا مہینوں کے فصل سے دی جائے، درمیان میں جو مال آئے اس کی زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟ یہ سب امور قرآن سے ثابت کریں۔
3.قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ نماز کو کھڑے ہو تو ہاتھ پاؤں منہ دھو لو اور سر کا مسح کرو (سورہ المائدہ 5 آیت 6)۔ اس کو عوام و خواص سب وضو کہتے ہیں۔ اور احادیث شریفہ میں اس کا یہی نام وارد ہوا ہے۔ اس وضو کے توڑنے والی کیا چیزیں ہیں؟ اس کا جواب قرآن سے دیں۔
4. قرآن مجید میں حج و عمرہ کے پورا کرنے کا حکم ہے(سورہ بقرہ آیت  196)، حج کیسے ہوتا ہے؟ کیا کیا کام کرنے پڑتے ہیں؟ کن کن تاریخوں میں کیا عمل ہوتا ہے؟ اس کے کتنے فرائض ہیں؟ احرام کس طرح باندھا جاتا ہے؟ اس کے کیا لوازم ہیں؟کیا ممنوعات ہیں؟ یہ سب قرآن شریف سے ثابت کریں۔
5. عمرہ میں کیا کیا افعال ہیں؟ اور اس کا اتمام کس طرح ہوتا ہے؟ وہ بھی قرآن سے ثابت کریں۔
6. سورہ توبہ میں نمازِ جنازہ کا ذکر ہے(آیت 84) نمازِ جنازہ کس طرح پڑھی جائے؟ اس کا طریقہ ادا کیا ہے؟ یہ سب قرآن مجید سے ثابت کریں۔ نیز ساتھ ہی کفن دفن کا طریقہ بھی قرآن سے ثابت کریں اور یہ بھی بتائیں کہ میت کو غسل دیا جائے یا نہیں اور اگر دیا جائے تو کس طرح دیا جائے؟ ان سب امور کے بارے میں آیاتِ قرآنیہ میں کہاں کہاں ہدایات مذکور ہیں؟
7. نکاح انسانی زندگی کی اہم ضرورت ہے۔ انعقادِ نکاح کس طرح ہوتا ہے؟ یہ بھی قرآن سے ثابت کریں۔
8. قرآن مجید میں دیت(خون بہا) کا ذکر ہے(سورہ  النساء آیت 92) قرآن مجید سے ثابت کریں کہ ایک جان کی دیت کتنی ہے؟ اور مختلف اعضا کی دیت کتنی ہے؟ اور مرد و عورت کی دیت میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟
9. سارق اور سارقہ(چور اور چورنی) کے ہاتھ کاٹنے کا قرآن مجید میں حکم ہے(سورہ المائدہ آیت 38)قرآن سے ثابت کریں کہ ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے؟(یاد رہے کہ عربی میں ید انگلیوں سے لے کر  بغل تک پورے  ہاتھ پو بولا جاتا ہے) اور کتنا مال چرانے پر ہاتھ کاٹا جائے، کیا ایک چنا اور ایک لاکھ روپے چرانے کا ایک ہی حکم ہے؟ پھر اگر دوسری بار چوری کرلی تو کیا کیا جائے؟ ان سب امور کا جواب قرآن مجید سے دیں۔
10.قرآن مجید میں زانی اور زانیہ کو ماۃ جلد(سو ضرب) مارنے کا حکم دیا ہے(سورہ النور آیت 2)۔ یہ ضرب کس چیز سے ہو؟ متفرق ہو یا بیک وقت متواتر ہو؟ یہ سب قرآن سے ثابت کریں۔
      منکرینِ حدیث ان سوالات کے جوابات قرآن سے دیں اور یہ یقین ہے کہ وہ جوابات قرآن سے نہیں دے سکتے، لہذا یہ اقرار کریں کہ دین اسلام کو جو قرآن نے کامل بتایا یہ اسی طرح سے ہے۔ کہ قرآن کے ساتھ حدیث پر بھی عمل کیا جائے اور یہ بھی تسلیم کرلیں کہ قرآن مجید پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کے بگیر عمل نہیں ہوسکتا اور یہ بھی اقرار کریں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال حجت ہیں۔
اور یہ بھی اقرار کریں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و ارشادات محفوظ ہیں۔ اگر وہ ہم تک نہ پہونچے ہوں تو  اب قرآن پر عمل ہونے کا کوئی راستہ نہیں رہتا اگر اس وقت قرآن پر عمل نہیں ہوسکتا تو قران دوامی کتاب نہ رہی(العیاذ باللہ)
      اور اگر حدیث کو حجت نہیں مانتے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف قرآن سے دین کیسے کامل ہوا؟ قرآن مجید کا اعلان ہے کہ دینِ اسلام کامل ہے اور بے شمار احکام ہیں جو قرآن میں نہیں۔ اور جو احکام قرآن میں مذکور ہیں وہ مجمل ہیں۔ بغیر تشریح اور تفسیر کے ان پر عمل نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی دشمن یہ سوال کرلے کہ قرآن کا فرمان ہے کہ دین اسلام کامل ہے لیکن اس میں تو نماز کی رکعتوں کا ذکر بھی نہیں ہے۔ اور حج کا طریقہ بھی نہیں بتایا وقوفِ عرفات کی تاریخ بھی نہیں بتائی۔ دیت کی مقدار بھی نہیں بتائی وغیرہ وغیرہ تو پھر کیسے کامل ہوا۔ اس سوال کا جواب ملحدو اور منکرو تمہارے پاس کیا ہے؟ کیا انکارِ حدیث کے گمراہانہ دعوے کی پچ میں دین اسلام کو ناقص مان لو گے؟


مکمل تحریر >>

پیر، 24 فروری، 2014

اثبات صانع عالم کی ۱۰ عقلی دلیلیں


وجود باری تعالی یعنی ہستی صانع عالم کے دلائل عقلیہ سے ثبوت
پہلی دلیل --- دلیل صنعت
تمام عقلاء اس بات پر متفق ہیں کے صنعت سے صانع(بنانے والا) کی خبر ملتی ہے مصنوع (جس کو بنایا گیا)اور صنعت (factory)کو دیکھ کر عقل مجبور ہوتی ہے کے صانع کا اقرار کرے اور دہریئے(atheist) اور لا مذہب لوگ بھی اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کے فعل کے لئے فاعل  کا ہونا ضروری ہے . پس جبکہ ایک بلند عمارت اور ایک بڑا قلعہ اور اونچے مینار کو اور ایک دریا کے پل کو دیکھ کر عقل یہ یقین کر لیتی ہے کہ اس عمارت کا بنانے والا کوئی ضرور ہے اور اس منار اور پل کا  بنانے والا کوئی بڑا ہی ماہر انجینیر ہے تو کیا آسمان اور زمین کی اعلیٰ ترین عمارت اور اسکی عجیب و غریب صنعت اور اسکی باقائدگی اور حسن ترتیب کو دیکھ کر ایک اعلیٰ ترین صانع کا کیوں اقرار نہیں کیا جاتا.
          ایک تخت کو  دیکھتے ہی یہ یقین آجاتا ہے کہ کسی کاریگر نے اس ہئیت اور وضع سے اس کو بنایا ہے کیونکہ تخت کا خود بخود تیّار ہوجانا اور خاص ترتیب کے ساتھ لوہے کی کیلوں کا اس میں جڑ جانا محال ہے کسی درخت کے تختوں اور لوہے کی کیلوں میں یہ قدرت نہیں کہ اس ترتیب سے خود بخود جڑ جائیں.
          ایک دہری اور سائنس دان ایک معمولی گہڑی اور گھنٹہ کو دیکھ کر یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ کسی بڑے ہی ماہر کی ایجاد ہے کے جو قوائد ہندسہ(digits) اور کل سازی کے اصول سے پورا واقف ہے اور یہ یقین کر لیتا ہے کے ضرور بالضرور اس گھڑی کا کوئی بنانے والا ہے کہ جس نے عجیب انداز سے اسکے پرزوں کو مراتب کیا ہے اور جس کے ذریعہ اوقات کا بخوبی پتہ چلتا ہے حالانکہ وہ یہ امر بخوبی جانتا ہے کہ دنیا کی گھڑیاں اور گھنٹے وقت بتلانے میں بسا اوقات غلطی کرتے ہیں مگر چاند سورج جو کبھی طلوع اور غروب میں غلطی نہیں کرتے اور جنکے ذریعہ سارے عالم کا نظام حیات اور نظام اوقات چل رہا ہے ،یہ دہری چاند اور سورج کے صانع کا اقرار نہیں کرتا اگر اس موقعہ پر کوئی یہ کہنے لگے کہ اس گھڑی کو ایک ایسے شخص نے بنایا ہے جو اندھا اور بھرا اور گونگا ہے اور ناسمجھ اور بے خبر اور علم ہندسہ سے بے بہرہ اور کل سازی کے اصول سے ناواقف ہے تو کیا یہی فلسفی اور سائنسدان اس کہنے والے  کو پرلے درجہ کا احمق نہ بتلائےگا ؟ غرض یہ کہ جہاں صنعت اور کاریگری پائی جائیگی صانع کا تصور اور اقرار ضرور کرنا پڑےگا.
بلکہ
صنعت کو دیکھ کر صرف صانع کا یقین ہی نہیں ہوتا بلکہ اجمالی طور پر صانع کا مرتبہ بھی معلوم ہو جاتا ہے پس کیا آسمان و زمین کی اعلی ترین صنعت کو دیکھ کر ہم کو یہ یقین نہیں ہوگا کہ اس کا صانع بھی بڑا ہی اعلی اور ارفع اور اعظم اور اجل اور عقل سے بالا اور برتر ہے کہ جس کے صنائع اور بدائع کے سمجھنے سے عقلاء عالم کی عقلیں قاصر اور عاجز ہیں.
یہ منکرین خدا جب بازار میں بوٹ جوتا خریدنے جاتے ہیں تو دکاندار سے پوچھتے ہیں کے یہ بوٹ کس کارخانہ کا بنا ہے تو وہ اگر جواب میں یہ کہے کہ یہ بوٹ کسی کارخانہ میں نہیں بنا ہے بلکہ یہ بوٹ خود مادہ اور ایتھر کی حرکت سے آپ کے پیر کے مطابق تیار ہوگیا ہے اور خود بخود حرکت کرکے میری اس دکان پر آگیا ہے تو منکر خدا صاحب دکاندارکے اس جواب کے متعلق کیا کہیں گے، غور کرلیں اور بتلائیں کہ کیا سمجھ میں آیا اور اپنے اوپر منطبق کریں.
اثبات صانع  کی دوسری دلیل--- وجود بعد العدم
ہر ذی عقل کو یہ بات معلوم ہے کہ میں ایک وقت میں معدوم(نا پید،فناکیا گیا ) تھا اور ایک طویل وعریض عدم(نیستی۔نہ ہونا۔ناپیدی) کے بعد موجود ہوا ہوں اور جو چیز عدم کے بعد وجود میں آئے اس کے واسطے کوئی پیدا کرنے والا اور اس کو عدم سے وجود میں لانے والا چاہئے اور یہ  بھی معلوم ہے کہ میرا خالق نہ میرا نفس ہے اور نہ میرے ماں باپ اور نہ میرے جنس اس لئے کہ وہ سب میری طرح عاجز ہیں کسی میں ایک ناخن اور بال پیدا کرنے کی بھی قدرت نہیں اور نہ آسمان اور زمین اور نہ یہ عناصر اور نہ کواکب اور نہ یہ فصول میرے خالق ہیں اس لئے کہ یہ چیزیں بے شعور اور بے ادراک (بے عقل) ہیں اور ہر وقت متغیر (بدلتی) اور متبدل ہوتی رہتی ہیں ان میں یہ صلاحیت کہاں کہ ایک ذی علم اور ذی فہم انسان کو پیدا کرسکیں پس معلوم ہوا کہ میرا  خالق کوئی ایسی چیز ہے کہ جو لاچارگی اور حدوث اور تغیر و تبدل اور عیب اور نقسان سے پاک ہے وہی ہمارا خدا اور معبود ہے۔

اثبات صانع کی تیسری دلیل---- تغیراتِ عَالَم
موجودات عالم پر ایک نظر ڈالیے ہر ایک چھوٹی اور بڑی چیز حیوانات یا نباتات یا جمادات مفردات یا مرکبات جس پر نظر ڈالیے ہر لمحہ اس میں تغیر و تبدل ہے اور کون و فساد اور موت و حیات کا ایک عظیم  انقلاب برپا ہے جو بآواز بلند پکار رہا ہے کہ یہ تمام متغیر ہونے والی (بدلنے والی) چیزیں حادث ہیں اپنی ذات سے کوئی بھی قدیم نہیں۔ کسی عظیم ترین ہستی کے زیر ِفرمان ہیں کہ وہ جس طرح چاہتا ہے ان کہ پلٹییں دیتا رہتا ہے اور طرح طرح سے ان کہونچاتا رہتا ہے اور زیر و  زبر کرتا ہے پس جس ذات بابرکت کے ہاتھ میں ان تغیرات اور انقلابات کی باگ ہے وہی ان سب کا خالق و موجد ہے۔
          منکیرین  ِ خدا یہ کہتے ہیں کہ عالم کے یہ تغیرات اور تبدلات محض قانون طبعی اور قانون فطری کے تحت چل رہے ہیں ،اہل اسلام یہ کہتے ہیں کہ قانون طبعی اور قانون فطری  صرف ایک آلہ ہے جو کسی با اختیار کاریگر کا محتاج ہے اس کاریگر کو ہم خدا کہتے ہیں جو اس آلہ کا محرک ہے اور وہی اس آلہ کا خالق بھی ہے وہی اپنے اختیار سے اس عجیب و غریب نظام کو چلا رہا ہے محض آلہ کو کاریگر سمجھ لینا اور یہ گمان کرلیتا کہ اس آلہ اور بسولہ(لکڑی چھیلنے کا آلہ)  ہی نے تخت اور الماریاں تیار کردی ہیں یہ ایک خیال خام ہے اور جو شخص یہ گمان کرے کہ بغیر کاریگر کے محض آلہ کی فطری اور طبعی حرکت سے یہ الماری تیار ہوگئی ہے تو وہ بلا شبہ دیوانہ ہے۔
اثبات صانع کی چوتھی دلیل-امکانِ اشیاء
واجب الوجود کی ہستی کی ایک دلیل  یہ ہے کہ عالم میں جس قدر اشیاء موجود ہیں وہ سب کی ممکنات ہیں یعنی ان کا ہونا اور نہ ہونا وجود اور عدم  ہستی اور نیستی دونوں برابر کے درجہ میں ہیں نہ انکا وجود ضروری ہے اور نہ ان کا عدم ضروری ہے اور جو چیز بذاتہ (خود سے)ممکن الوجود ہو یعنی اپنی ذات کے اعتبار سے اسکی ہستی اور نیستی برابر ہو اس کے وجود اور ہستی کے لئے عقلاً کسی مرجح (افضل) اور موجد(بانی)  کا وجود ضروری ہے کیوں کہ کوئی چیز خود بخود یا محض اتفاق وقت سے بلا سبب عدم سے نکل کر وجود میں نہیں آسکتی جب تک اس کے وجود کے لئے کوئی سبب اور موجد نہ ہو کہ جو اس کو ترجیح دیکر اس کو عدم سے نکال کر وجود میں لائے ورنہ ترجیح بلا مرجح   لازم آئے گی جو بالبداہت محال ہے اور ہر ذی ہوش کے نزدیک ظاہر البطلان ہے  کیوں کہ ممکن اپنی ذات اور ماہیت (کیفیت)کے لحاظ سے نہ موجود ہے اور نہ معدوم ۔ وجود اور عدم دونوں اس کے حق میں یکساں ہیں پس ضرورت اس کی ہے کہ کوئی ذات ایسی ہو کہ جو اس کو عدم ازلی (ہمیشہ کی نیستی/نہ ہونے)کے پنجرے سے نکال کر وجود کے دلفریب میدان میں لے آئے پس جس ذات نے اس عالم امکانی کو عدم سے نکال کر وجود کا خلعت(پوشاک) پہنایا اور اس کے وجود کو اس کے عدم پر ترجیح دی وہی ذات واجب الوجود ہے جس کو اہل اسلام خدا کی ہستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ؂
یہ بارونق جو ہے ہستی کا گلزار :: عدم سے کر دیا اس نے نمودار
        اور واجب الوجود وہ ہے کہ جس کا وجود ضروری ہو اور ممکنات کے قبیل سے نہ ہو ورنہ ، خفتہ را خفتہ کے کند بیدار(خفتہ – سویا ہوا، کند – سست کاہل) کی مثل صادق ہوگی کیوں کہ اگر وہ خود ممکن ہوگا تو اس کا وجود اور عدم اس کے حق میں یکساں ہوگا تو وہ دوسری چیز کے لئے وہ کیوں کر علت اور مرجح (افضل)  بن سکے گا۔ پس جو واجب الوجود اور خود بخود موجود ہو اور دوسرے کے لئے واجب الوجود ہو اسی کو ہم خدا کہتے ہیں۔ خدا کو خدا اس لئے کہتے ہیں کہ وہ خود بخود ہے۔
اثبات صانع کی پانچویں دلیل ---- فناء و زوال
          عالم کی جس چیز کو بھی دیکھو تو اس کا وجود پائدار نہیں ،ایک زمانہ تھا کو وہ پردہ عدم میں مستور تھی اور پھر اسی طرح ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جس میں اس کا نام صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔؂
رہیں گے پھول نہ پھولوں میں رنگ و بو باقی :: رہے گا اے میرے معبود ایک تو ہی باقی
یہ موت اور حیات کی کشمکش اور وجود و عدم کی آمد و رفت بآواز بلند یہ پکار رہی ہے کہ ہمارا یہ وجود ہمارا خانہ زاد اور خود ساختہ نہیں بلکہ مستعار اور کسی دوسرے کی عطا ہے جیسے زمیں پر دھوپ اور روشنی کی آمد و رفت اس امر کی دلیل ہے کہ یہ روشنی زمین کی ذاتی نہیں بلکہ عطیئہ آفتاب ہے کہ حرکت طلوعی میں آفتاب اس کو عطا کرتا ہے اور حرکت غروبی میں اس کو واپس لےلیتا ہے اسی طرح ممکنات اور کائنات کا وجود اور عدم جس ذات کے ہاتھ میں ہے وہی واجب الوجود ہے جس کا وجود ذاتی ہے اسی کو ہم مسلمان اللہ اور خدا کہتے ہیں۔
اثبات صانع کی چھٹی دلیل ----  اختلاف صفات  و کیفیات
زمین سے لے کر آسمان تک عالم کے تمام اجسام جسمیت کے لحاظ سے برابر ہیں اور جب چیزیں حقیقت اور ماہیت سے برابر ہوں تو جو کچھ ایک چیز کے لئے روا ہے وہی دوسرے کے لئے بھی روا ہے جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے معلوم ہوا  کہ آسمان جو بلند ہے اس کا نشیب اور پستی میں ہونا بھی روا ہے اور زمین جو پستی میں ہے اس کا بلندی میں ہونا بھی روا ہے اور آگ جو گرم اور خشک ہے اس کا سرد اور تر ہونا بھی روا ہے اور پانی جو سرد اور تر ہے اس کا گرم اور خشک ہونا بھی  روا ہے پس جب اجسام میں تمام صفات اور کیفیات جائز اور روا ہیں تو پھر ہر جسم کے لئے ایک خاص معیّن کیفیت اور معیّن شکل اور معیّن احاطہ اور معیّن مقدار کے لئے کوئی مؤثر مدبّر اور مقدّر مقتدر چاہئے کہ جس نے ان تمام جائز اور ممکن صفات اور کیفیات میں سے ہر جسم کو ایک خاص صفت اور خاص کمیّت اور خاص کیفیت اور خاص ہئیت کے ساتھ معیّن اور مخصوص کیا ،کیوں کہ ہر جائز اور ممکن کے لئے کسی مرجح (افضل)  کا ہونا ضروری ہے کہ جو کسی ایک جانب کو ترجیح دے ورنہ ترجیح بلا مرجح   لازم آئیگی پس وہی مؤثر مدبر اور مقدّر مقتدر اس عالم کا رب ہے۔
اثبات صانع کی  ساتویں دلیل ---- دلیل حرکت
علامہ  احمد بن مسکویہ الفوز الاصغر میں فرماتے ہیں کہ عالم کی جس چیز پر بھی نظر ڈالو وہ حرکا سے خالی نہیں اور حرکت کی چھ قسمیں ہیں
(۱)حرکتِ کَون
(۲)حرکت فساد
(۳)حرکتِ نمو
(۴)حرکت ذبول
(۵)حرکت استحالہ
(۶)حرکت نقل۔
اس لیے حرکت ایک قسم کے تبدل یا نقل کو کہتے ہیں اگر ایک شئی عدم سے وجود کی طرف حرکت کرے تو یہ حرکت کَون ہے اور اگر خرابی کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکت فساد ہے اور اگر ایک کیفیت اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکت استحالہ ہے اور اگر کمی سے زیادتی کی طرف ہو جیسے بچّہ کا بڑا ہوجانا اور پودہ کا درخت ہو جانا تو یہ حرکت نمو ہے اور افر زیادتی سے کمی کی طرف حرکت ہو جیسے کسی موٹے آدمی کا دبلا ہو جانا تو یہ حرکت ذبول ہے اور اگر ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکت نقل ہے اس کی دو قسمیں ہیں مستقیمہ اور مستدیرہ غرض یہ کہ عالم کے تمام عناصر اور جمادات اور نباتات اور حیوانات سب کے سب حرکت میں ہیں اور ان میں کسی شئی کی حرکت اس کی ذاتی نہیں اور کوئی چیز اپنی ذات سے متحرک نہیں اور عقلاً ہر متحرک کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس کے علاوہ اس کے لئے کوئی محرِّک ہو پس ضروری ہے کہ تمام اشیاء عالم کا بھی کوئی محرک ہو جس کی وجہ سے تمام اشیاء عالم حرکت میں آرہی ہیں پس وہ ذات جس پر کائینات عالم کی حرکت کا سلسلہ ختم ہوتا ہے وہی خدا ہے جو اس سارے عالم کو چلا رہا ہے اور طرح طرح حرکت دے رہا ہے جن کے انواع و اقسام کے ادراک سے عقلاء عالم کی عقلیں قاصر اور عاجز اور درماندہ ہیں۔
اثبات صانع کی آتھویں دلیل--- حسن ترتیب
امام رازی فرماتے ہیں کہ ہستی صانع کی ایک دلیل یہ ہے کہ آسمان اور ستارے اور نباتات اور جمادات اور حیوانات کی ترتیب ہم اس طرح پر پاتے ہیں کہ حکمت کی نشانیاں اس میں ظاہر ہیں اور جس قدر زیادہ غور و فکر کرتے ہیں اسی قدر یہ نشانیاں زیادہ معلوم ہوتی ہیں جیسا کہ ہم  آئیندہ فصلوں (پوسٹس) میں اس کی شرح اور تفصیل کرینگے اور بداہت عقل سے یہ جانتے ہیں کہ ایسی عجیب و غریب نشانیوں کا ظہور محض اتفاقی طور پر محال ہے اس لئے ضروری ہوا کہ ایسے کامل اور قادر حکیم کے وجود کا اقرار کیا جائے جسے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ان عجیب و غریب چیزوں کو عالم علوی اور سفلی میں ظاہر کیا ہے۔
قدرت کا نظام ہے بتاتا   ::   تو صانع و منتظم ہے سب کا
اثبات صانع کی نویں دلیل--- عاجزی اور درماندگی
ہر ذی ہوش اس امر کو بداہت عقل سے جانتا ہے کہ انسان جب کسی بلا اور مصیبت  میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اسباب اور وسائل اسکو جواب دے دیتے ہیں تو اس وقت اس کا دل بے اختیار عاجزی اور زاری کرنے لگتا ہے اور کسی زبردست قدرت والی ہستی سے مدد مانگتا ہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ہر شخص فطری طور پر ہی جانتا ہے کہ کہئی دافع البلیات اور مجیب الداعوات اور حافظ و ناصر اور دستگیر ضرور ہے جس کو انسان بیچارگی کی حالت میں بے اختیار اپنی دستگیری کے لئے پکارتا ہے اور اس کے روبرو گریہ و زاری کرتا ہے اور یہ امید رکھتا ہے کہ وہ دستگیر میری مصیبت کو ٹال دے گا پس وہی دستگیر ہمارے نزدیک خدا ہے جو سارے عالم کی سنتا ہے اور دستگیری کرتا ہے ؂
جب لیتے ہیں گھیر تیری قدرت کے ظہور
منکر بھی پکار اٹھتے ہیں تجھکو ضرور
اثبات صانع کی دسویں دلیل--- ذلّت و خواری ِ اشیاء
اس کارخانۂ عالم کی جس چیز پر بھی نظر ڈالیے تو ذلّت و خواری اوراحتیاج ہی ٹپکتی ہوئی نظر آئےگی جس سے بالبداہت یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سارا کارخانہ محض بخت و اتفاق سے پیدا نہیں ہوا بلکہ کسی بڑے عزت و حکمت والے کے سامنے ذلیل و خوار اور اس کے حکم کا فرمانبردار ہے۔
آسمان، چھاند، سورج ستاروں کو دیکھے کہ ایک حال پر قرار نہیں کبھی عروج اور کبھی نزول کبھی طلوع اور کبھی غروب کبھی نور اور کبھی گہن ہے ۔ آگ کو دیکھئے کہ تھامے نہیں تھمتی ،ہوا کا حال یہ ہے کہ کبھی حرکت اور کبھی سکون اور حرکت بھی ہے تو کبھی شمال اور کبھی جنوب کی جانب اور کبھی مشرق اور کبھی مغرب کی جانب ہے۔ غرض یہ کہ ہوا ماری ماری پھرتی ہے اور پانی کا کرہ ہوا کے جھونکوں سے کہیں کا کہیں نکلا چلا جاتا ہے زمین کو دیکھے کہ اس کی پستی اور لاچاری اس درجہ میں ہے کہ مخلوق اس کہ جس طرح چاہتی ہے پامال کرتی ہے کوئی بول و براز سے اسے آلودہ کر رہا ہے اوع کوئی لید اور گوبر سے اس کو گندہ کر رہا ہے  کوئی اس پر دوڑ رہا ہے اور کوئی اسے کھود رہا ہے مگر زمیں سر نہیں ہلا سکتی، حیوانات کو دیکھئے  کہ وہ کس طتح لاچار ہیں کوئی ان پر سوار ہو رہا ہے اور کوئی ان پر بوجھ لاد رہا ہے اورکوئی ان کو ذبح کر رہا ہے اور تمام مخلوقات میں سب سے افضل یہ نوع انسانی ہے وہ ذلت اور احتیاج میں تمام مخلوقات سے بڑھا ہوا ہے۔ بھوک اور پیاس اور بول و براز صحت و  مرض ، گرمی و سردی اور قسم قسم کی ضرورتوں اور خواہشوں نے اس کو نچا رکھا ہے حیوانات تو فقط کھانے اور پینے ہی میں محتاج ہیں اور حضرت انسان کے پیچھے تو حاجتوں کا ایک لشکر لگا ہوا ہے انسان کو کبڑا بھی چاہئے مکان بھی چاہئے گھوڑا گاڑی بھی چاہئے ، عزت اور منصب اور جاگیر بھی چاہئے بیاہ شادی بھی چاہئے بیماری کی حالت میں طبیب اور ڈاکڑ بھی چاہئے بغیر ان کے زندگی دوبھر ہے اور حیوانات کو ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ حیوان کو نہ لباس کی ضرورت ہے اور نہ بیماری میں لسہ ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ حیوان بغیر کسی میڈیکل کالج میں تعلیم پائے خود بخود اپنی بیماری کے مناسب جڑی بوٹیوں کو کھا کر شفایاب ہوجاتا ہے پس جب انسان کہ جو باتفاق اہل عقل اشرف المخلوقات ہے اس قدر ذلیل اور حاجت مند اور محکوم ٹھرا کہ ہر طرگ سے حاجتیں اور ضرورتیں اس کی گردن پکڑے ہوئے ہیں اور باقی عالم کی ذلت و خواری کا حال آسمان سے لیکر زمین تک محمل طور پر معلوم ہی ہوچکا تو پھر کیوں  کر عقل باور کرسکتی ہے کہ یہ سارا کارخانہ خود بخود چل رہا ہے کائینات عالم کی اس ذلت و خواری اور مجبوریو لاچاری کو دیکھ کر بے اختیار دل میں آتا ہے کہ ان کے سر پر کوئی ایسا زبردست حاکم ہے جو ان سے ہر دم مثل قیدیوں کے بیگاریں لیتا ہے تاکہ یہ مغرور نہ ہوجائیں اور کسی کو ان کی بے نیازی کا گمان نہ ہو بیشک یہ قید میں رکھنے والی زبردست اور غالب ہستی واجب الوجوب اور الہ العالمین کی ہے۔
ایں جہاں آئینہ دارروئے تو :: ذرہ ذرہ رہ نماید سوئے تو

مادہ پرست بتلائیں کہ ہماری یہ بے شمار قسم قسم کی ضرورتیں اور حاجتیں کون پوری کر رہا ہے آیا مادہ اور اس کی حرکت سے پوری ہو رہی ہیں یا کسی خداوند کریم سے پوری ہو رہی ہیں

 --- مصنف حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ، اللہ ان کی خبر کو نور سے بھردے


مکمل تحریر >>

اثبات صانع کی چھٹی دلیل ---- اختلاف صفات و کیفیات

اثبات صانع کی چھٹی دلیل ----  اختلاف صفات  و کیفیات

زمین سے لے کر آسمان تک عالم کے تمام اجسام جسمیت کے لحاظ سے برابر ہیں اور جب چیزیں حقیقت اور ماہیت سے برابر ہوں تو جو کچھ ایک چیز کے لئے روا ہے وہی دوسرے کے لئے بھی روا ہے جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے معلوم ہوا  کہ آسمان جو بلند ہے اس کا نشیب اور پستی میں ہونا بھی روا ہے اور زمین جو پستی میں ہے اس کا بلندی میں ہونا بھی روا ہے اور آگ جو گرم اور خشک ہے اس کا سرد اور تر ہونا بھی روا ہے اور پانی جو سرد اور تر ہے اس کا گرم اور خشک ہونا بھی  روا ہے پس جب اجسام میں تمام صفات اور کیفیات جائز اور روا ہیں تو پھر ہر جسم کے لئے ایک خاص معیّن کیفیت اور معیّن شکل اور معیّن احاطہ اور معیّن مقدار کے لئے کوئی مؤثر مدبّر اور مقدّر مقتدر چاہئے کہ جس نے ان تمام جائز اور ممکن صفات اور کیفیات میں سے ہر جسم کو ایک خاص صفت اور خاص کمیّت اور خاص کیفیت اور خاص ہئیت کے ساتھ معیّن اور مخصوص کیا ،کیوں کہ ہر جائز اور ممکن کے لئے کسی مرجح (افضل)  کا ہونا ضروری ہے کہ جو کسی ایک جانب کو ترجیح دے ورنہ ترجیح بلا مرجح   لازم آئیگی پس وہی مؤثر مدبر اور مقدّر مقتدر اس عالم کا رب ہے۔
مکمل تحریر >>

ہفتہ، 22 فروری، 2014

اثبات صانع کی پانچویں دلیل ---- فناء و زوال

اثبات صانع کی پانچویں دلیل ---- فناء و زوال
        عالم کی جس چیز کو بھی دیکھو تو اس کا وجود پائدار نہیں ،ایک زمانہ تھا کو وہ پردہ عدم میں مستور تھی اور پھر اسی طرح ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جس میں اس کا نام صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔؂

رہیں گے پھول نہ پھولوں میں رنگ و بو باقی :: رہے گا اے میرے معبود ایک تو ہی باقی


یہ موت اور حیات کی کشمکش اور وجود و عدم کی آمد و رفت بآواز بلند یہ پکار رہی ہے کہ ہمارا یہ وجود ہمارا خانہ زاد اور خود ساختہ نہیں بلکہ مستعار اور کسی دوسرے کی عطا ہے جیسے زمیں پر دھوپ اور روشنی کی آمد و رفت اس امر کی دلیل ہے کہ یہ روشنی زمین کی ذاتی نہیں بلکہ عطیئہ آفتاب ہے کہ حرکت طلوعی میں آفتاب اس کو عطا کرتا ہے اور حرکت غروبی میں اس کو واپس لےلیتا ہے اسی طرح ممکنات اور کائنات کا وجود اور عدم جس ذات کے ہاتھ میں ہے وہی واجب الوجود ہے جس کا وجود ذاتی ہے اسی کو ہم مسلمان اللہ اور خدا کہتے ہیں
مکمل تحریر >>