Pages

منگل، 11 نومبر، 2014

عیسیٰ علیہ السلام کا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ کا معازنہ اور عیسائیت کے اعتراض کا جواب

اعتراض نمبر ۳: قرآن کریم اس بات پر شاہد ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کرتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ قرآن میں اور نہ احادیث میں مردوں کے زندہ کرنے کا تذکرہ ہے؟
جواب: اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ مادر زاد نابیناؤں کو تندرست اور مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس وجہ سے دیا گیا کہ اس زمانے میں طب کو بہت عروج تھا اور خداوند عالم کی یہ سنت رہی ہے کہ جس زمانے میں جو چیز سب سے زائد معیار ترقی اور عروج پر ہوتی اسی نوع کا انبیاء کو معجزہ دیا جاتا ہے تاکہ دنیا دیکھ لے کہ یہ کمال طاقت بشریہ سے بالا و برتر ہے اور اس کا ظہور صرف قدرت خداوندی کی طرف سے ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادوگری فن شباب پر تھا تو  حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہ معجزے دئے گئے جن کے سامنے بڑے بڑے جادوگر عاجز رہے اور اس کو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کے سامنے اطاعت کی گردنیں جھکادیں۔ اس چیز کو ملحوظ رکھتے ہوئے سمجھ لیجئے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فصاحت و بلاغت کا زور تھا۔ تو اس مناسبت سے آپ کو قرآن کا معجزہ دیا گیا جس کی فصاحت و بلاغت نے عرب کے مایئہ ناز شعراء کو عاجز کردیا نیز اگر کوئی ایک معجزہ کسی پیغمبر کو دیا گیا اور کسی دوسرے کو نہیں دیا گیا تو یہ بات اس دوسرے پیغمبر کی تنقیص کی دلیل نہیں۔
     بہرحال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اس قدر عظیم المرتبت و کامل ہیں کہ ان کے معجزات کی نظیر و مثیل دنیا پیش نہ کرسکی جیسے قرآن کریم وغیرہ میں اسی طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک درخت کو آواز دی تو اکھڑ کر آپ کے سامنے آتا ہے اور تین مرتبہ اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ کی گواھی دیتا ہے جب کہ ایک شخص نے آپ سے پر زُور لفظوں میں یہ مطالبہ کیا کہ آپ کی رسالت کی گواہی کون دے سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ درخت اور اس کو بلایا اور اس نے گواھی دی۔
     اسی طرح معجزہ معراج کہ ایک رات میں مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے ساتویں آسمانوں پر تشریف لے جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کے اشارے سے چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا یہ تمام واقعات جو قرآن سے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں کسی طرح بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات سے کم نہیں بلکہ بڑھ کر ہیں کیوں کہ یہ باتیں ایسے طور پر واقع ہو رہی ہیں کہ ان کی نوع میں عقلاً اس کی ذرہ بھر بھی صلاحیت نہ تھی۔ مردوں کو زندہ کرنے کے واقعات میں کوئی سن کر یہ کہہ بھی سکتا ہے کہ جس مردہ کو دفن کیا تھا مرا ہی نہ تھا بلکہ اس کو سکتہ کی بیماری تھی۔(لیکن یہ بات واضح رہے کہ اس سے احقر عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کا منکر نہیں بلاکہ اس سے ثابت یہ کرنا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ اور ان سے بہتر اور افضل ہے) وہ دور ہوگئی لیکن سنگریزوں کی تسبیح۔ پتھروں کا سلام، انگلیوں سے پانی کے چشموں کا جاری ہونا اور درخت کے اپنی جگہ سے اکھڑ کر روبرو حاضر ہونے کے بعد گواہی دینے کی عقلاً کیا تاویل ممکن ہے۔
     دوسری بات یہ کہ جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام بعثت دنیا میں ہوئی یعنی آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ معجزہ دیا گیا، مگر آقائے نامدار تاجدار بطحیٰ احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ تمام کے تمام معجزات ایک ہی ذات کے اندر موجود تھے، چنانچہ کسی فارسی شاعر نی کیا ہی خوب کہا ہے۔
حسن یوسف دم عیسیٰ یدبیضاداری

آنچہ خوباں ہمہ دراند تو تنہاداری
مکمل تحریر >>

اتوار، 9 نومبر، 2014

کیا علماء ترقی سے روکتے ہیں؟

کیا علماء ترقی سے روکتے ہیں؟
جواب ۱: لوگ علماء کو ترقی سے مانع کہتے ہیں آج میں اس الزام کو دفع کرنا چاہتا ہوں اور اس وقت  میں ترقی کی ضرورت پر بیان کروں گا۔ اس پر جینٹل مین(gentle men) چونکے کہ یہ ملّا آدمی اور ترقی کا بیان۔ میں نے کہا آپ تو ترقی کو صرف عقلی ضروری کہتے ہیں اور میں اسے شرعی فرض کہتا ہوں، اس پر اور بھی حیرت ہوئی، میں نے کہا حق تعالیٰ فرماتے ہیں  " وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ"
یعنی ہر قوم کے لئے ایک جہت قبلہ مقرر ہے جس کی طرف وہ منھ کرتی ہے، پس ایک دوسرے پر سبقت کرو۔
اس آیت میں حق تعالیٰ نے ہم کو استبقاق کا حکم دیا جس کے معنی ایک دوسرے پر سبقت کرنے کے ہیں اور یہی حاصل ہے ترقی کا تو ترقی کی ضرورت قرآن سے ثابت ہے۔ بلکہ "استبقوا"  صیغہ امر ہے جس کا مقتضی وجوب ہےتو یوں کہنا چاہئے کہ قرآن میں ترقی کو واجب و فرض کیا گیا ہے تو اب جو لوگ علماء کو ترقی سے مانع (روکنے والا) کہتے ہیں وہ ان پر کتنا بڑا افترا کرتے ہیں۔ بھلا جس چیز کا قرآن میں حکم ہے ، علماء کی کیا مجال ہے کہ اس سے منع کر سکیں ، پس ترقی کا ضروری ہونا تو متفق علیہ ہے البتہ اس کے طریقہ میں اختلاف ہے ۔ جینٹل مین(gentle men) کہتے ہیں کہ جس طرح ہم کہیں اسی طرح ترقی کرو اور علماء کہتے ہیں کہ جس طرح قرآن کہے اسی طرح ترقی کرو۔ سو قرآن میں "فاستبقوا" کے ساتھ "الخیرات" کی بھی قید ہے جس کا حاصل یہ ہوا کہ نیک کاموں میں ترقی کے آپ خواہاں ہیں وہ  ترقی فی الخیر ہے تو میں اس کا ذمہ لیتا ہوں کہ علماء آپ کو اس ترقی سے منع نہیں کریں اور اگر ترقی فی الشر ہے تو اس کا مطلوب نہ ہونا بلکہ مذموم نہ ہونا تمام عقلاء کے نزدیک مسلم ہے ورنہ پھر ایک ڈاکو کو بھی یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ مجھے ڈاکہ سے کیوں منع کیا جاتا ہے میں تو ترقی کا طالب ہوں۔ بتالیئے اسے کیا جواب دیں گے ظاہر ہے کہ اس سے یہی کہا جائے گا کہ تیری یہ ترقی ترقیِ محمود نہیں بلکہ ترقیِ مذموم ہے جہ کہ برے طریقے سے حاصل کی جاتی ہے۔
        معلوم ہوا کہ ترقی مطلقاً مطلوب نہیں بلکہ وہی مطلوب ہے جہ محمود ہو مذموم نہ ہو۔ پس اب یا تو آپ ثابت کردیں کہ جس ترقی کے آپ طالب ہیں وہ محمود ہے مذموم نہیں یا ہم ثابت کردیں کہ ترقی محمود یہ ہے جس کی ہم تعلیم دے رہے ہیں اور یہ ترقی مذموم ہے جس کی تعلیم آپ دے رہے ہیں۔ اس تقریر سے بہت جلد سمجھ گئے اور اقرار کر لیا کہ واقعی علماء کو ترقی سے اختلاف نہیں۔ بلکہ اس کے طریقِ تحصیل سے اختلاف ہے کیوں کہ ان طرق(راستوں) نے خلاف شرع ہونے کی وجہ سے اس ترقی کو فی الشر کا مصداق بنادیا ہے۔ غرض دوسری قوموں کی ترقی کو دیکھ کر مسلمانوں کے منہ میں پانی بھر آتا ہے اور وہ اس کی ہر حالت کو ترقی میں داخل سمجھ کر اختیار کرتے جاتے ہیں کبھی ان کی صورت و وضع کو اختیار کرتے ہیں کہ شاید اس کو ترقی میں دخل ہو کبھی عورتوں کے پردہ کو اٹھانا چاہتے ہیں کہ یہی ترقی سے مانع ہے۔ اگر عورتیں آزاد ہوں گی تو علوم صنعت و حرفت سیکھ کر خود بھی ترقی کریں گی اور اولاد کو بھی ترقی یافتہ اٹھائیں گی۔
        ایک صاحب نے میرے سامنے یہی دلیل بیان کی تھی میں نے کہا کہ مسلمانوں میں صرف شرفاء کی عورتیں پردہ نشیں ہیں جن کی تعداد ہندوستان میں بہت کم ہے ، زیادہ تعداد تو چھوٹی قوموں کی ہے اور ان میں پردہ کا ہمیشہ سے رواج نہیں ہے اگر بے پردگی کو ترقی میں کچھ دخل ہے تو ان قوموں نے کیوں نہ کرلی ۔ بس اس کا جواب کچھ نہ تھا۔ وہ میرا منہ تکنے لگے۔(العبرۃ بذبح البقرہ  ص 45)


مکمل تحریر >>

ہفتہ، 8 نومبر، 2014

عیسیٰ علیہ السلام کو گود میں نبوت ملی اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو چالس سال میں تو عیسیٰ علیہ السلام افضل ہوئے کا جواب

اعتراض نمبر ۲:- حضرت مسیح علیہ السلام کو گود میں کتاب دی گئی جیسا کہ قرآن کریم ناظق ہے  إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ مگر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال بعد خداوند قدوس نے کتاب دی۔

جواب: اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت اور کتاب و انجیل ماں کی گود میں نہیں دی گئی البتہ گفتگو بے شک ماں کی گود میں انہوں نے کی جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ماں ہی کی گود میں کتاب و نبوت دونوں چیزیں شیرخوارگی کی حالت میں دے دی گئیں تو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وجہ سے فضیلت لازم نہیں آتی، عقلی اعتبار سے اس سے بڑھ کر کمال تو یہ ہے کہ کسی ایک شخص کو چالیس برس کی طویل مدت تک اسی طرح دیکھتی رہی کہ نہ وہ ایک حرف  لکھ سکتا ہے اور نہ پڑھ سکتا ہے اور پھر ناگہاں اسی کی زباں سے علوم و ہدایت اور معارف و حقائق کے سمندر جاری ہوجائیں اور وہ کلام جو دنیا کو اپنے مقابلے کا اعلان (چیلنج) کرے اور تمام دنیا اس کے مقابلے سے عاجز رہے۔ عرب کے فصیح و بلیغ اس جیسی ایک بھی سطر پیش نہ کرسکے یقیناً یہ کلام ماں کی گود میں کلام کرنے سے بڑھ کر ہے پھر یہ بات بھی ثابت ہے کہ مسیح علیہ السلام کی طرح ماں کی گود میں دو اور بچوں نے بھی کلام کیا ہے حضرت ابو  ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ماں کی گود میں سوائے تین بچوں کے اور کوئی نہیں بولا۔ ایک حضرت عیسی علیہ السلام، دوسرا وہ بچہ جو جریج کے زمانے میں تھا اور تیسرا ایک اور بچہ واقعہ کی تفصیل کے لئے صحیح مسلم کی مراجعت کی جائے۔ جریج عابد و زاہد شخص تھا وہ اپنی ماں کی غلط بد دعاء کی وجہ سے ایک فتنہ میں مبتلا ہوا کہ ایک بدکار عورت اس کے گرجا کے قریب پناہ لینے والے چرواہے سے زنا کر کے حاملہ ہوئی اور ولادت پر یہ کہہ دیا کہ یہ جریج سے پیدا ہوا پس اس نومولود بچے نے لوگوں کے سامنے گوایہ دی کہ میرا باپ تو چرواہا ہے ، دوسرا ایک اور بچہ جو ماں کی گود میں دودھ پی رہا تھا اس کی ماں نے ایک شہسوار کو گزرتے دیکھ کر تمنا کی کہ اے اللہ تعالیٰ تو میرے بیٹے کو ایسا ہی بنادے، تو اس بچے نے کہا کہ اے پروردگار تو مجھے ایسا نہ بنا۔(صحیح مسلم ج۲،ص۳۱۳)
پس معلوم ہوگیا کہ ماں کی گود میں بات کرنا صرف عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت نہیں یہ چیزیں تو اکثر بچوں کے لئے بھی قدرت خداوندی نے ظاہر کی ہیں۔

     بہرحال دوسری تردید یہ ہے کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ عرب کے اندر ایک یہودی گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے جو کہ صرف ڈیڑھ سال کی عمر میں نماز اور دیگر عبادات کا پابند ہوگیا اور کچھ یہ دنوں کے بعد بلا جھجھک عربی میں تقریریں کرتا ہے اور اسلام پر کئے جانے والے اشکالات کے جوابات دیتا ہے۔ اب بھلا بتائیں کہ کیا یہ لڑکا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فوقیت لے جائے گا؟ ہرگز نہیں پس اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت سے فوقیت نہیں لے جاسکتے۔
مکمل تحریر >>

جمعہ، 7 نومبر، 2014

رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک وفات کے وقت پر اعتراض کا جواب

منکرینِ حدیث کے اعتراضات کا جائزہ ۱
منکرین حدیث امت کو سرکارِ دوعالم ﷺ کی احادیث مبارکہ اور آپ ﷺ کی اتباع سے -جو کہ قرآن مجید کا حکم ہے- دور کر کے نفس کی اتباع میں لانے کے لئے احادیث کا اپنی طرف سے مطلب بیان کرنا اور ان میں تعارض بتا کر ان سے امت کو دور کرنے کی ناکام سازش میں لگے ہوئے ہیں۔
ان کی اس سازشی اعتراضات میں سے ایک اعتراض کا جواب دینے کی ہم نے کوشش کی ہے، ممکن ہے کسی حق پسند کو سمجھ آجائے اور وہ اپنے باطل عقائد سے توبہ کرلے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی ﷺ کو اس لئے بھیجا کہ ان کی اتباع کی جائے اور ان کو اس لئے بھی بھیجا کہ وہ آیات تلاوت فرمائیں اور لوگوں کا تزکیہ کریں اور ان کو قرآن ہ حکمت کی باتیں بتائیں جیسا کہ یہ بات قرآن کریم میں موجود ہے (دیکھئے سورہ الجمعہ آیت نمبر ۲)
اب یہی حکمت کی باتیں ہمیں احادثِ مبارکہ سے ملتی ہے، یہی احادیثِ مبارکہ ہے جن سے ہمیں قرآن کی تشریح و تفسیر ملتی ہے۔
خیر اعتراض اور اس کے جواب سے پہلے ایک بات یہ سمجھ لیں اور آپ سب خود اپنے اپنے علاقہ میں ایسا کرتے ہوں گے۔
کسی عدد کو بتانے کے لئے کبھی تو پورہ بتاتے ہیں اور کبھی اس کو دھائیوں میں بتاتے ہیں مثلاً
کسی چیز کو آپ نے ۳۵۳۵ میں خریدا ہو، تو کسی کے پوچھنے پر تو یہ کہتے ہیں کہ بھائی میں نے اس کو ساڑھے تین ہزار میں خریدا ہے، اسی طرح کبھی کسی کو پورا عدد بتاتے ہیں کہ میں نے اس کو تین ہزار پانچ سو پینتیس میں خریدا وغیرہ وغیرہ۔
اب آئیے منکرین حدیث کا اعتراض دیکھتے ہیں۔
منکر حدیث صحیح بخاری پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
"اس میں ایک روایت میں حضور ﷺ کی عمر  63 سال بتائی ہے اور ایک میں 60 سال۔"
اس اعتراض میں کچھ دم نہیں اصل میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ایک روایت میں فرمایا
«تُوُفِّيَ، وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ»
آپ ﷺ کی ترسٹھ برس کی عمر میں وفات ہوئی(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب کم سن رسول ﷺ۔۔۔ 2348، صحیح بخاری  کتاب المناقب باب وفاۃ النبی ﷺ 3536 عن عائشۃ رضی اللہ عنہا)

اور دوسری روایت میں فرمایا
تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً
آپ ﷺ کو ساٹھ سال کے سرے  پر اللہ تعالیٰ نے وفات دی۔(کتاب اللباس باب الجعد حدیث 5900)

آپ نے جو اوپر مثال سمجھی کہ کبھی ہم دہائیوں میں بات کہتے ہیں اور کبھی تفصیل سے دہائیوں کے ساتھ آنے اور پائی بھی ذکر کرتے ہیں۔
اور آپ روایت کے الفاظ اگر دیکھیں گے تو اس میں بھی وضاحت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ صرف 60 سال نہیں بلکہ "علی راس" کا لفظ استعمال فرمائے ہے یعنی 60 سال کے سرے پر اور دہائی کے اوپر کے عدد کو عرب لوگ کبھی واضح کرتے تھے کبھی حذف کرتے تھے جیسا کہ ہم بھی کرتے ہیں۔ تو اس میں شرعاً، عقلاً اور عرفاً  کوئی خرابی نہیں ہے، بس اعتراض کرنے والے کے دماغ میں فطور ہے۔
آنکھیں اگر ہیں بند تو پھر دن بھی رات ہے
اس میں بھلا قصور کیا ہے آفتا ب کا
آخر میں ایک گذارش یہ ہے کہ اگر کوئی دہریہ قرآن پر اعتراض کریگا تو کیا آپ قرآن چھوڑ دو گے؟؟؟
نہیں نا، تو پھر ان جیسے اعتراض اگر آپ کے سامنے آئیں تو علماء حق سے رجوع ہوں ان شاء اللہ تشفی بخش جواب ملے گا۔
اللہ پاک ہم کو قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور باطل کے مکر و فریب سے ہماری اور پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔

آمین یا رب العالمین۔
مکمل تحریر >>

اعتراض قرآن میں عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ذکر ہے اور نبی کریم ﷺ کی والدہ کا ذکر نہیں

عیسائیت کے اعتراضات کے جوابات ۱
اعتراض نمبر ۱۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ کو قرآن شریف نے صدیقہ کہا ہے اور ان کی شان میں  وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ بیان کر کے بتا دیا کہ ان کو تمام جہاں کی عورتوں پر فضیلت دی ہے اس کے بر خلاف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا قرآن کریم میں کوئی ذکر نہیں آیا؟


جواب: بیشک قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ذکر کیا اور ان کو صدیقہ کہا ہے اور آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ کا ذکر قرآن میں نہین۔ لیکن اس سے مسیح علیہ السلام کی حضور ﷺ پر افضلیت لازم نہیں آتی حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ کے ذکر کی وجہ تو یہ ہے کہ یہود ان پر بہتان لگاتے تھے اس بناء پر ان کی عفت و پاکدامنی کا ذکر کیا گیا۔ اس کے برخلاف حضور ﷺ کی والدہ کے بارے میں کسی دشمن نے بھی ایک حرف بدگمانی کا نہیں لگایا تھا اسی وجہ سے ان کے ذکر کی ضرورت نہ تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا خاص اہتمام سے ذکر کیا برخلاف دوسرے انبیاء علیہم السلام کے ان کی ولادت کا مسئلہ کسی اعتراض یا شبہ کا محل نہ تھا اس لئے قرآن  نے اس سے کوئی تعرض نہیں کیا۔
مکمل تحریر >>

جمعرات، 6 نومبر، 2014

مذہب اسلام

مذہب  اسلام
مذہب دنیا میں بہت ہیں مگر ایسا مذہب جو ہر بات پر دلیل اور برہان پیش کرتا ہو اور بے دلیل باتوں کا رد کرتا ہو اور جن کو اپنے آغوش میں  آنے کی دعوت دیتا ہو سب سے پہلے ان کو تفکّر اور تدبّر کا حکم دیتا ہو کہ مجھ کو قبول کرنے سے پہلے میری تعلیمات کو عقل اور برہان کی کسوٹی پر پرکھ لو اور خوب سوچ لو اور سمجھ لو جب تمہارا قلب مطمئن ہوجائے اس وقت اس دعوت کو قبول کرو.
كما قال تعالى:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا                                    (القران ٤/١٧٤)
ترجمہ: " اے لوگو! بلاشبہ الله کی طرف سے تمہارے پاس ایک دلیل آئی ہے اور ہم نے تمہاری ہدایت کیلئے ایک نہایت چمکتا ہوا نور اتارا ہے."
كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ  (القرآن ٢/٢٤٢)
ترجمہ:" بیان کرتا ہے الله تعالیٰ اپنی نشانیوں کو تاکے تم سمجھو."
كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ (القرآن ٢/٢١٩)
ترجمہ:" اسی طرح الله تعالیٰ تمہارے لئے اپنی آیتوں کو بیان کرتا ہے تاکہ تم غور اور فکر کرو."
اور اپنے مخالفین سے بھی دلیل اور برہان کا مطالبہ کرتا ہے.
کما قال تعالیٰ:
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (القرآن ٢/١١١)
ترجمہ:" آپ ان سے کہ دیجیے کہ اپنے دعوے پر دلیل لاؤ اگر سچے ہو."
إِنْ عِنْدَكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِهَذَا أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
(القرآن ١٠/٦٨)
ترجمہ:" اس دعوے پر تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں کیا الله پر ایسی بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں."

ایسا مذہب صرف اور صرف مذہب اسلام ہے.
قرآن کریم میں اس قسم کی آیتیں بہت بکثرت موجود ہیں لہذا یہ کہنا کے اسلام ایسا مذہب ہے کے جو اپنی باتوں کو بے دلیل منوانا چاہتا ہے ایک کھلا ہوا بہتان ہے.
ہر مذہب میں کچھ اصول ہوتے ہیں اور کچھ فروع، اصول کم ہوتے ہیں اور فروع زیادہ انکا فرداَ فرداَ سمجھانا دشوار ہے بلکہ تطویل لا طائل اور بیکار ہے، اصول سمجھ لینے کے بعد فروع کا سمجھنا دشوار نہیں اس لئے الله تعالیٰ کی توفیق سے اس ناچیز کو یہ خیال ہوا کہ اصول اسلام پر ایک مختصر اور جامع تحریر لکھ دی جائے۔
     


مکمل تحریر >>