Pages

پیر، 29 فروری، 2016

ایک عورت کے لیے متعدد خاوند ہونے کی ممانعت کی وجہ

 ایک عورت کے لیے متعدد خاوند ہونے کی ممانعت کی وجہ

 ١۔ اگر ایک عورت چند مردوں میں مشترک ہو تو بوجہ استحقاق نکاح ہر ایک وقضا حاجت کا استحقاق ہوگا اور اس میں غالب اندیشہ فساد اور عناد کا ہے شاید ایک ہی وقت میں سب کو ضرورت ہو اور عجب نہیں کہ نوبت قتل تک پہنچے۔ ہندوؤں کے بعض فرقوں کے مذہب میں یہ جائز ہے کہ پانچ بھائی مل کر ایک عورت رکھ لیں بے غیرتوں کا مذہب بے غیرتی ہی کی باتیں بتلاتا ہے اسلام جیسا باغیرت مذہب ہرگز ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا کہ عورت کبھی کسی سے ہم آغوش اور ہم کنار ہو اور کبھی کسی سے۔
 ٢۔ مرد فطرتا حاکم ہے اور عورت محکوم ہے اس لیے کہ طلاق کا اختیار مرد کو ہے جب تک مرد عورتوں کو آزاد نہ کرے تو عورت دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے جیسے باندی اور غلام باختیار خود قید سے نہیں نکل سکتے اسی طرح عورت باختیار خود قید نکاح سے نہیں نکل سکتی باندی اور غلاموں میں اگر اعتاق ہے تو عورتوں میں طلاق غرض یہ کہ جب مرد حاکم ہوا تو عقلا یہ توجائز ہے کہ ایک حاکم کے ماتحت متعدد محکوم ہوں اور متعدد اشخاص کا ایک حاکم کے ماتحت رہنا نہ موجب ذلت وحقارت ہے نہ موجب صعوبت۔ بخلاف اس کے کہ ایک شخص متعدد حاکموں کے ماتحت ہو تو ایسی صورت میں کہ جب محکوم ایک ہو اور حاکم تعدد ہوں تو محکوم کے لیے عجب مصیبت کاسامنا کہ کس کس کی اطاعت کرے اور ذلت بھی ہے جتنے حاکم زیادہ ہوں گے اسی قدر محکوم میں ذلت بھی زیادہ ہوگی۔ اس لیے شریعت اسلامیہ نے ایک عورت کو دو یا چار خاوندوں سے نکاح کی اجازت نہیں دی اس لیے کہ اس صورت میں عورت کے حق میں تحقیر وتذلیل بھی بہت ہے اور مصیبت بھی نہایت سخت ہے۔ نیز متعدد شوہروں کی خدمت بجالانا اور سب کو خوش رکھنا ناقابل برداشت ہے اس لیے شریعت نے ایک عورت کو دو یا چار مردوں سے نکاح کی اجازت نہیں دی تاکہ عورت اس تذلیل وتحقیر اور ناقابل برداشت مشقت سے محفوظ رہے۔

 ٣۔ نیز اگر ایک عورت کے متعدد شوہر ہوں تو متعدد شوہروں کے تعلق سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ ان میں سے کس کی اولاد ہوگی اور ان کی تربیت کس طرح ہوگی اور ان کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی نیز وہ اولاد چاروں شوہروں کی مشترکہ ہوگی یا منقسمہ او تقسیم کس طرح ہوگی اگر ایک ہی فرزند ہوا تو چار باپوں میں کس طرح تقسیم ہوگا اور اگر متعدد اولاد ہوئی اور نوبت تقسیم کی آئی تو بوجہ اختلاف ذکورت وانوثت اور بوجہ تفاوت شکل وصورت اور بوجہ اختلاف قوت وصحت اور بوجہ تفاوت فہم وفراست موزانہ تو ممکن نہیں اس لیے کہ اس تفاوت کی وجہ سے تقسیم اولاد کا مسئلہ غایت درجہ پیچیدہ ہوگا اور نہ معلوم باہمی نزاع سے کیا کیا صورتیں اور فتنے رونما ہوں۔(مأخوذ تفسیر معارف القرآن لادریس کاندھلوی)

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔