Pages

پیر، 29 فروری، 2016

ایک عورت کے لیے متعدد خاوند ہونے کی ممانعت کی وجہ

 ایک عورت کے لیے متعدد خاوند ہونے کی ممانعت کی وجہ

 ١۔ اگر ایک عورت چند مردوں میں مشترک ہو تو بوجہ استحقاق نکاح ہر ایک وقضا حاجت کا استحقاق ہوگا اور اس میں غالب اندیشہ فساد اور عناد کا ہے شاید ایک ہی وقت میں سب کو ضرورت ہو اور عجب نہیں کہ نوبت قتل تک پہنچے۔ ہندوؤں کے بعض فرقوں کے مذہب میں یہ جائز ہے کہ پانچ بھائی مل کر ایک عورت رکھ لیں بے غیرتوں کا مذہب بے غیرتی ہی کی باتیں بتلاتا ہے اسلام جیسا باغیرت مذہب ہرگز ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا کہ عورت کبھی کسی سے ہم آغوش اور ہم کنار ہو اور کبھی کسی سے۔
 ٢۔ مرد فطرتا حاکم ہے اور عورت محکوم ہے اس لیے کہ طلاق کا اختیار مرد کو ہے جب تک مرد عورتوں کو آزاد نہ کرے تو عورت دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے جیسے باندی اور غلام باختیار خود قید سے نہیں نکل سکتے اسی طرح عورت باختیار خود قید نکاح سے نہیں نکل سکتی باندی اور غلاموں میں اگر اعتاق ہے تو عورتوں میں طلاق غرض یہ کہ جب مرد حاکم ہوا تو عقلا یہ توجائز ہے کہ ایک حاکم کے ماتحت متعدد محکوم ہوں اور متعدد اشخاص کا ایک حاکم کے ماتحت رہنا نہ موجب ذلت وحقارت ہے نہ موجب صعوبت۔ بخلاف اس کے کہ ایک شخص متعدد حاکموں کے ماتحت ہو تو ایسی صورت میں کہ جب محکوم ایک ہو اور حاکم تعدد ہوں تو محکوم کے لیے عجب مصیبت کاسامنا کہ کس کس کی اطاعت کرے اور ذلت بھی ہے جتنے حاکم زیادہ ہوں گے اسی قدر محکوم میں ذلت بھی زیادہ ہوگی۔ اس لیے شریعت اسلامیہ نے ایک عورت کو دو یا چار خاوندوں سے نکاح کی اجازت نہیں دی اس لیے کہ اس صورت میں عورت کے حق میں تحقیر وتذلیل بھی بہت ہے اور مصیبت بھی نہایت سخت ہے۔ نیز متعدد شوہروں کی خدمت بجالانا اور سب کو خوش رکھنا ناقابل برداشت ہے اس لیے شریعت نے ایک عورت کو دو یا چار مردوں سے نکاح کی اجازت نہیں دی تاکہ عورت اس تذلیل وتحقیر اور ناقابل برداشت مشقت سے محفوظ رہے۔

 ٣۔ نیز اگر ایک عورت کے متعدد شوہر ہوں تو متعدد شوہروں کے تعلق سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ ان میں سے کس کی اولاد ہوگی اور ان کی تربیت کس طرح ہوگی اور ان کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی نیز وہ اولاد چاروں شوہروں کی مشترکہ ہوگی یا منقسمہ او تقسیم کس طرح ہوگی اگر ایک ہی فرزند ہوا تو چار باپوں میں کس طرح تقسیم ہوگا اور اگر متعدد اولاد ہوئی اور نوبت تقسیم کی آئی تو بوجہ اختلاف ذکورت وانوثت اور بوجہ تفاوت شکل وصورت اور بوجہ اختلاف قوت وصحت اور بوجہ تفاوت فہم وفراست موزانہ تو ممکن نہیں اس لیے کہ اس تفاوت کی وجہ سے تقسیم اولاد کا مسئلہ غایت درجہ پیچیدہ ہوگا اور نہ معلوم باہمی نزاع سے کیا کیا صورتیں اور فتنے رونما ہوں۔(مأخوذ تفسیر معارف القرآن لادریس کاندھلوی)
مکمل تحریر >>

مسئلہ تعدد ازدواج

 مسئلہ تعدد ازدواج

 شریعت اسلامیہ غایت درجہ معتدل اور متوسط ہے افراط اور تفریط کے درمیان میں ہے نہ تو عیسائیوں کے راہبوں اور ہندوؤں کے جوگیوں اور گسایوں کی طرح ملنگ بننے کی اجازت دیتی ہے اور نہ صرف ایک عورت ہی پر قناعت کرنے کو لازم گردانتی ہے بلکہ حسب ضرورت ومصلحت ایک سے چار تک اجازت دیتی ہے۔ چنانچہ پادری لوگ بھی نظر عمیق کے بعد اسی کا فتوی دیتے ہیں جیسا کہ کتاب مسمی بہ اصلاح سہو مطبوعہ امریکن مشن پریس ١٨٧١ ء میں لکھتے ہیں کہ تعدد ازددواج بنی اسرائیل میں تھا اور خدا نے اس کو منع نہیں کیا بلکہ برکت کا وعدہ کیا اور عارئین لوتھر نے فلپ کو دو جروں کی اجازت دی تھی منقول از تفسیرحقانی ص ١٦٦ ج ٣۔ تاریخ عالم کے مسلمات میں سے ہے کہ اسلام سے پہلے تمام دنیا میں یہ رواج تھا کہ ایک شخص کئی کئی عورتوں کو اپنی زوجیت میں رکھتا تھا اور یہ دستور تمام دنیا میں رائج تھا حتی کہ حضرات انبیاء بھی اس دستور سے مستثنی نہ تھے۔ حضرت ابراہیم کی دوبیبیاں تھیں حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ حضرت اسحاق کے بھی متعدد بیویاں تھیں حضرت موسیٰ کے بھی کئی بیویاں تھیں اور سلیمان (علیہ السلام) کے بیسوں بیویاں تھیں اور حضرت داوؤد (علیہ السلام) کے سو بیویاں تھیں اور توریت وانجیل ودیگر صحف انبیاء میں حضرات انبیاء کی متعدد ازواج کا ذکر ہے اور کہیں اس کی ممانعت کا ادنی اشارہ بھی نہیں پایا جاتا صرف حضرت یحیٰی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایسے نبی گزرے ہیں کہ جنہوں نے بالکل شادی نہیں کی ان کے فعل کو اگر استدلال میں پیش کیا جائے تو ایک شادی بھی ممنوع ہوجائے گی احادیث میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے اور نزول کے بعد شادی فرمائیں گے اور ان کے اولاد بھی ہوگی۔ غرض یہ کہ علماء یہود اور علماء نصاری کو مذہبی حیثیت سے تعدد ازواج پر اعتراض کا کوئی حق نہیں صرف ایک ہی بیوی رکھنے کا حکم کسی مذہب اور ملت میں نہیں نہ ہندوں کے شاستروں میں نہ توریت میں اور نہ انجیل میں صرف یورپ کارواج ہے نہ معلوم کس بنا پر یہ رواج رائج ہوا اور جب سے یورپ میں یہ رواج چلا اس وقت مغربی قوموں میں زناکاری کی اس درجہ کثرت ہوئی کہ پچاس فیصد آبادی غیر ثابت النسب ہے اور جن قوموں نے تعدد ازدواج کو برا سمجھا ہے وہی قومیں اکثر زناکاری میں مبتلا ہیں۔ اسلام سے بیشتر دنیا کے ہر ملک اور ہر خطہ میں کثرت ازدواج کی رسم خوب زور شور سے رائج تھی اور بعض اوقات ایک ایک شخص سو عمر تک عورتوں سے شادیاں کرلیتا تھا اسلام آیا اور اس نے اصل تعداد کو جائز قرار دیا مگر اس کی ایک حد مقرر کردی اسلام نے تعدد ازدواج کو واجب اور لازم قرار نہیں دیا بلکہ بشرط عدل وانصاف اس کی اجازت دی کہ تم کو چار بیویوں کی حد تک نکاح کی اجازت ہے اور اس چار کی حد سے تجاوز کی اجازت نہیں اس لیے کہ نکاح سے مقصود عفت اور تحصین فرج ہے چار عورتوں میں جب ہر تین شب کے بعد ایک عورت کی طرف رجوع کرے گا تو اس کے حقوق زوجیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا شریعت اسلامیہ نے غایت درجہ اعتدال اور توسط کو ملحوظ رکھا کہ نہ تو جاہلیت کی طرح غیر محدود کثرت ازدواج کی اجازت دی کہ جس سے شہوت رانی کادروازہ کھل جائے اور نہ اتنی تنگی کی کہ ایک عورت سے زائد کی اجازت ہی نہ دی جائے بلکہ بین بین حالت کو برقرار رکھا کہ چار تک اجازت دی تاکہ نکاح کی غرض وغایت یعنی عفت اور حفاظت نظر اور تحصین فرج اور تناسل اور اولاد بسہولت حاصل ہوسکے اور زنا سے بالکلیہ محفوظ ہوجائے اس لیے کہ بعض قوی اور توانا اور تندرست اور فارغ البال اور خوش حال لوگوں کو ایک بیوی سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بوجہ قوت اور توانائی اور اوپر سے فارغ البال اور خوش حالی کی وجہ سے چار بیویوں کے بلاتکلف حقوق زوجیت ادا کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔
 (بلکہ) ایسے قوی اور تواناجن کے پاس لاکھوں کی دولت بھی موجود ہے اگر وہ اپنے خاندان کی چار غریب عورتوں سے اس لیے نکاح کریں کہ ان کی تنگ دستی مبدل، بفراخی ہوجائے اور غربت کے گھرانہ سے نکل کر ایک راحت اور دولت کے گھر میں داخل ہوں اور اللہ کی نمعت کا شکر کریں تو امید ہے کہ ایسا نکاح اسلامی نقطہ نظر سے بلاشتبہ عبادت اور عین عبادت ہوگا اور قومی نقطہ نظر سے اعلی ترین قومی ہمدردی ہوگی جس دولت مند اور زمیندار اور سرمایہ دار کے خزانہ سے ہر مہینہ دس ہزار مزدوروں کو تنخواہیں ملتی ہوں اور دس ہزار خاندان اس کی اعانت اور امداد سے پرورش پاتے ہوں تو اگر اس کے خاندان کی چار عورتیں بھی اس کی حرم سرائے میں داخل ہوجائیں اور عیش وعشرت کے ساتھ ان کی عزت وناموس بھی محفوظ ہوجائے تو عقلا وشرعا اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی بلکہ اگر کوئی بادشاہ یا صدر مملکت یا وزیر سلطنت یا کوئی صاحب ثروت ودولت بذریعہ اخبار یہ اعلان کرے کہ میں چار عورتوں سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور ہر عورت کو ایک ایک لاکھ مہردوں گا اور ایک ایک بنگلہ کاہر ایک کو مالک بنادوں گا جو عورت مجھ سے نکاح چاہے وہ میرے پاس درخواست بھیج دے۔
 (تو سب سے پہلے)۔ انہی بیگمات کی درخواستیں پہنچیں گی جو آج تعدد ازدواج کے مسئلہ پر شور برپا کررہی ہیں یہی بیگمات سب سے پہلے اپنے آپ کو اور اپنی بیٹیوں اور بھتیجیوں اور بھانجیوں کو لے کر امراء اور وزارء کے بنگلوں پر خود حاضر ہوجائیں گی اور اگر کوئی امیر اور وزیر ان کے قبول کرنے میں کچھ تامل کرے گا تو یہی بے گمات دل آویز طریقہ سے ان کو تعدد ازدواج کے فوائد اور منافع سمجھائیں گی۔
 ٢۔ نیز بسااوقات ایک عورت امراض کی وجہ سے یا حمل اور تولد النسل کی تکلیف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتی کہ مرد اس سے منتفع ہوسکے تو ایسی صورت میں مرد کے زنا سے محفوظ رہنے کی عقلا اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ اس کو دوسرے نکاح کی اجازت دی جائے۔
 حکایت۔ ایک بزرگ کی بیوی نابینا ہوگئی تو انہوں نے دوسرا نکاح کیا تاکہ یہ دوسری بیوی پہلی بیوی نابینا کی خدمت کرسکے اہل عقل فتوی دیں کہ اگر کسی کی پہلی بیوی معذور ہوجائے اور دوسرا نکاح اس لیے کرے تاکہ دوسری بیوی پہلی بیوی کی خدمت کرسکے اور اس کے بچوں کی تربیت کرسکے کیا یہ دوسرا نکاح عین عبادت اور عین مروت اور عین انسانیت نہ ہوگا۔
 ٣۔ نیز بسااوقات عورت امراض کی وجہ سے یا عقیم (بانجھ) ہونے کی وجہ سے توالدالنسل کے قابل نہیں رہتی اور مرد کو بقاء نسل کی طرف فطری رغبت ہے ایسی صورت میں عورت کو بے وجہ طلاق دے کر علیحدہ کرنا یا اس پر کوئی الزام لگا کر طلا دے دینا جیسا کہ دن رات یورپ میں ہوتا رہتا ہے یہ صورت بہتر ہے یا یہ صورت بہتر ہے کہ اس کی زوجیت اور اس کے حقوق کو محفوظ رکھ کر دوسرے نکاح کی اجازت دے دیں بتلاؤ کون سی صورت بہتر ہے اگر کسی قوم کو اپنی تعداد بڑھانی منظور ہو یا عام طور پر بنی نوع کی افزائش نسل مدنظر ہو تو سب سے بہتر یہی تدبیر ہوسکتی ہے کہ ایک مرد کئی شادیاں کرے تاکہ بہت سی اولاد پیدا ہو۔
 ٤۔ نیز عورتوں کی تعداد قدرتا اور عادۃ مردوں سے زیادہ ہے مرد بہ نسبت عورتوں کے پیدا کم ہوتے ہیں اور مرتے زیادہ ہیں لاکھوں مرد لڑائیوں میں مارے جاتے ہیں اور ہزاروں مرد جہازوں میں ڈوب جاتے ہیں اور ہزاروں کانوں میں دب کر اور تعمیرات میں بلندیوں سے گر کر مرجاتے ہیں اور عورتیں پیدا زیادہ ہوتی ہیں اور مرتی کم ہیں پس اگر ایک مردکو کئی شادیوں کی اجازت نہ دی جائے تو یہ فاضل عورتیں بالکل معطل اور بے کار رہیں کون ان کی معاش کا کفیل اور ذمہ دار بنے اور کس طرح عورتیں اپنے کو زنا سے محفوظ رکھیں پس تعدد ازدواج کا حکم بے بس کس عورتوں کاسہارا ہے اور ان کی عصمت اور ناموس کی حفاظت کا واحد ذریعہ ہے اور ان کی جان اور آبرو کانگہبان اور پاسبان ہے عورتوں پر اسلام کے اس احسان کا شکر واجب ہے کہ تم کوتکلیف سے بچایا اور راحت پہنچائی اور ٹھکانا دیا اور لوگوں کی تہمت اور بدگمانی سے تم کو محفوظ کردیا دنیا میں جب کبھی عظیم الشان لڑائیاں پیش آتی ہیں تو مرد ہی زیادہ مارے جاتے ہیں اور قوم میں بے کس عورتوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو اس وقت ہمدرداں قوم کی نگاہیں اس اسلامی اصول کی طرف اٹھ جاتی ہیں ابھی تیس سال قبل کی بات ہے کہ جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک جن کے مذہب میں تعداد ازددواج جائز نہیں عورتوں کی بے کسی کو دیکھ کر اندر ہی اندر تعداد ازدواج کے جواز کا فتوی تیار کررہے تھے۔ جو لوگ تعدد ازدواج کو برا سمجھتے ہیں ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ جب ملک میں عورتیں لاکھوں کی تعداد میں مردوں سے زیادہ ہوں تو ان کی فطری اور طبعی جذبات اور ان کی معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے آپ کے پاس کیا حل ہے اور آپ نے ان بے کس عورتوں کی مصیبت دور کرنے کے لیے کیا قانون بنایا ہے افسوس اور صد افسوس کہ اہل مغرب اسلام کے اس جائز تعدد پر عیش پسندی کا الزام لگائیں اور غیر محدود ناجائز تعلقات اور بلا نکاح کے لاتعداد آشنائی کوتہذیب اور تمدن سمجھیں زنا جو کہ تمام انبیاء اور مرسلین کی شریعتوں میں حرام اور تمام حکماء کی حکمتوں میں قبیح رہا مغرب کے مدعیان تہذیب کو اس کا قبح نظر نہیں آتا اور تعدد ازدواج کہ جو تمام انبیاء ومرسلین اور حکماء اور عقلاء کے نزدیک جائز اور مستحسن رہا وہ ان کو قبیح نظر آتا ہے ان مہذب قوموں کے نزدیک تعدد ازدواج تو جرم ہے اور زنا اور بدکاری جرم نہیں۔

 ٥۔ عورتیں۔ مرد سے عقل میں بھی نصف ہیں اور دین میں بھی نصف ہیں جس کا حاصل یہ نکلا کہ ایک عورت ایک مرد کاربع یعنی چوتھائی ہے اور ظاہر ہے کہ چار ربع مل کر ایک بنتے ہیں معلوم ہوا کہ چار عورتیں ایک مرد کے برابر ہیں اس لیے شریعت نے ایک مرد کو چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دی۔(مأخوذ تفسیر معارف القرآن لادریس کاندھلوی سورہ النساء)
مکمل تحریر >>

جمعرات، 18 فروری، 2016

کافر قیدیوں کو غلام باندی بنانے میں حکمت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کافر قیدیوں کو غلام باندی بنانے میں حکمت :
جب مسلمان جہاد کرتے تھے تو جن کافروں کو قید کرلیا جاتا تھا ان میں مرد بھی ہوتے تھے اور عورتیں بھی۔ امیر المؤمنین کو اختیار تھا کہ ان کو جہاد کرنے والوں میں تقسیم کردے جب ان مجاہدین میں قیدی تقسیم ہوجاتے تھے تو ان کی ملکیت میں آ جاتے تھے اس لیے ان کا بیچنا، فروخت کرنا جائز تھا اور یہ غلامی کفر کی سزا ہے اور اس میں ان غلاموں کا یہ نفع ہے کہ دار الاسلام میں رہیں گے تو مسلمانوں کے اسلامی معاشرہ سے مانوس ہوں گے اذانیں سنیں گے، نمازیں دیکھیں گے، اور اسلام قبول کریں گے، اور آخرت کے دائمی عذاب سے بچ جائیں گے اور حکومت اسلامیہ کا یہ نفع ہے کہ جب ان کو مجاہدین میں تقسیم کردیا تو ان کی قوت بھی ٹوٹ گئی جس سے بغاوت کا اندیشہ تھا اور بیت المال پر ان قیدیوں کو کھلانے پلانے کا بار بھی نہ پڑا، اگر ان کو جیل میں رکھتے تو بغاوت کا بھی خطرہ تھا۔ آپس میں مشورہ کرتے رہتے اور دار الحرب سے تعلقات پید کرکے دار الاسلام میں فساد کا باعث بن جاتے اور بیت المال کو روزانہ ان لوگوں پر بھاری رقم خرچ کرنی پڑتی۔ دوسری طرف مجاہدین کو نفع ہوا ان کو کام کاج کرنے والے افراد مل گئے اور چونکہ یہ لوگ اپنے مالکوں کا کام کریں گے اس لیے ان کو کھلانا پلانا بھی ناگوار نہ ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ جو غلام تمہارے احوال کے مناسب اور موافق ہو اسے اسی میں سے کھلاؤ جس میں سے تم کھاتے ہو اور اسی میں سے پہناؤ جس میں سے تم پہنتے ہو اور جو تمہارے احوال کے مناسب نہ ہو اس کو بیچ دو اور اللہ کی مخلوق کو عذاب نہ دو، (رواہ احمد و ابوداؤد کمافی المشکوٰۃ صفحہ ٢٩٢)
مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے احوال کے موافق اور مناسب نہ ہوگا تو خواہ مخواہ اس کی مار پیٹ کی طرف بھی طبیعت چلے گی اور کھلانے پلانے میں بھی کوتاہی ہوگی اسے بیچ دو گے تو انشاء اللہ تعالیٰ دوسری جگہ اس کے حال کے مناسب مل جائے گی جب غلام اسی کھانے میں سے کھائے گا جو گھر والوں کے لیے پکایا گیا اور اسی کپڑے میں سے پہنے گا جو دوسرے گھر والے پہنتے ہیں اور اس کے علاوہ روا داری، دلداری اور حسن معاشرت کے مظاہرے اس کے سامنے آئیں گے تو حسن و خوبی کے برتاؤ کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہ کرے گا اور رفتہ رفتہ اسلام قبول کرنے کے قریب تر آ جائے گا۔
اسلام کی تاریخ میں بڑے بڑے محدثین ایسے حضرات گزرے ہیں جو غلام تھے۔ یا باندیوں کی اولاد تھے۔ حدیث کی کتابوں میں غلاموں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ گزارہ کرنے اور ان کے حقوق کی نگہداشت کرنے کے بارے میں مفصل ہدایات موجود ہیں۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض الوفات میں بار بار یہ فرمایا الصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (کہ تم نماز کا دھیان رکھنا اور جو تمہارے غلام اور باندیاں ہو ان کے حقوق کی نگہداشت کرنا) (رواہ احمد صفحہ ٨١٧: ج ٣) یہ ہے وہ غلامی جسے یورپ کے متعصب جاہلوں نے اعتراضات کا نشانہ بنا رکھا ہے۔


مکمل تحریر >>

اسلام میں تعددِ ازواج کا حکم عین حکمت پر مبنی ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام میں تعددِ ازواج کا حکم عین حکمت پر مبنی ہے

وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا
ترجمہ:اور اگر تم کو ڈر ہو کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرلو جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو، تین تین، چار چار سو اگر تم کو ڈر ہو کہ انصا ف نہ کرسکو گے تو ایک ہی عورت سے نکاح کرلو، یا ان لونڈیوں پر بس کرو جو تمہاری ملکیت ہوں۔ یہ اس سے قریب تر ہے کہ تم زیادتی نہ کرو(سورہ النساء: آیت۳)

چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت اور عدل کرنے کا حکم :
اور ساتھ ہی ساتھ عورتوں کی تعداد کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا کہ جو عورتیں پسند ہوں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرسکتے ہو اور اگر یہ ڈر ہو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتوں سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند ہوں۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اول تو ہر شخص کو بیک وقت دو یا تین یا چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ جو تمہیں اچھی لگیں ان سے نکاح کرلو ایک سے زائد نکاح کرنا جائز ہے۔ فرض اور واجب نہیں ہے اور جائز بھی اس شرط پر ہے کہ جتنی بیویاں ہوں ان سب کے درمیان عدل و انصاف رکھے۔ قلبی تعلق پر تو مواخذہ (گرفت) نہیں ہے کہ یہ اختیاری چیز نہیں۔ البتہ اختیاری چیز میں عدل نہ کیا تو گرفت ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے پاس دو عورتیں ہوں اور وہ ان دونوں عورتوں کے درمیان عدل یعنی برابری نہ کرتا ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا، جتنی راتیں ایک کے پاس رہے اتنی ہی راتیں دوسری کے پاس رہے تقسیم جس طرح چاہے کرے اس کے اختیار میں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح : صفحہ ٢٧٩: از ترمذی وغیرہ)
بہت سے لوگ پیسہ زیادہ ہونے کی وجہ سے یا خواہ مخواہ شوق میں آ کر پہلی بیوی پرانی ہوجانے کی وجہ سے یا نئی بیوی کے مالدار ہونے کی وجہ سے دوسری شادی کرلیتے ہیں۔ لیکن پھر برابری نہیں کرتے اور کسی ایک کے ساتھ ظلم و زیادتی بھی کرتے رہتے ہیں یہ شرعاً حرام ہے۔ اگر کسی کو برابری پر قدرت نہ ہو تو ایک ہی بیوی رکھے تاکہ ظلم و زیادتی سے محفوظ رہے۔
فائدہ : شریعت اسلامیہ میں بیک وقت صرف چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت ہے مگر مذکورہ بالا شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ دوسری قوموں میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اس کے بدلے میں ان کے یہاں یہ جائز ہے کہ بہت سی دوستانیاں (گرل فرینڈز) رکھ لے۔ زنا کاری کرنا ان کے نزدیک کچھ عیب کی بات نہیں ہے البتہ نکاح کر کے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا اور حلال طریقہ سے زندگی گزارنا ان کے نزدیک عیب ہے۔ اسلام پر جو بعض جاہلوں کے اعتراضات ہیں ان میں سے ایک یہ اعتراض بھی ہے کہ اسلام میں تعدد ازواج کی اجازت ہے۔ یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اول تو چار تک کی اجازت ہے واجب نہیں۔ دوسرے دنیاوی احوال کے اعتبار سے اس اجازت کی ضرورت ہے اول تو اس میں نسل بڑھانے کا فائدہ ہے اور دوسرا عظیم فائدہ یہ ہے کہ جب کسی وجہ سے مردوں کی قلت ہوجائے (جیسا کہ جہاد کے مواقع میں مرد شہید ہوجاتے ہیں) تو عورتیں بیوہ ہوجائیں۔ تحفظ آبرو کے ساتھ ان کے اخراجات کا انتظام ہوجائے۔ پھر جب عورتوں کی کثرت ہو اور مردوں کی کمی ہو (جیسا کہ اس کا دور شروع ہوچکا ہے) تو عورتوں کی عفت و عصمت اور شریفانہ معیشت کا انتظام اسی میں ہے کہ مرد ایک سے زیادہ نکاح کریں۔ جو لوگ گہرائیوں میں نہیں جاتے۔ حکمتوں کو نہیں سمجھتے انہوں نے اپنے ذمہ صرف اعتراض کرنا ہی لے رکھا ہے جب اجازت اور اباحت کو عدل و انصاف کے ساتھ مشروط و مقید کردیا گیا تو پھر کسی عقلمند کے لیے کسی طرح بھی اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی۔
پھر آیت کے خاتمے پر فرمایا : (ذٰلِکَ اَدْنآی اَلَّا تَعُوْلُوْا) (یہ اس سے قریب تر ہے کہ تم زیادتی نہ کرو) یعنی نکاح کے بارے میں جو تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے اس کے مطابق عمل کرو گے تو ظلم و زیادتی سے محفوظ رہ سکتے ہو مذکورہ ہدایت پر عمل کرنا ظلم سے بچانے کے لیے بہت زیادہ قریب تر ہے۔
فائدہ : بیک وقت چار عورتوں تک سے نکاح کرنے کی اجازت ہے لیکن اس میں شرطیں ہیں ہر عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا، مثلاً جو عورت کسی مرد کی عدت میں ہو اس سے نکاح نہیں ہو سکتا، دو بہنیں ایک مرد کے نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں اور جن عورتوں سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے ان سے کبھی نکاح نہیں ہو سکتا۔ جس کی تفصیل اس سورت کے چوتھے رکوع میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ اگر کوئی شخص بیک وقت چار عورتیں نکاح میں ہوتے ہوئے پانچویں عورت سے نکاح کرے گا تو یہ نکاح شرعی نہ ہوگا اور یہ عورت اس کی شرعی بیوی نہ بن سکے گی زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ بغیر کسی قانون کے بہت سی عورتوں سے نکاح کرلیا کرتے تھے۔ اسلام میں صرف چار تک کی اجازت دی گئی اور عدل و انصاف کی قید لگا دی گئی۔ غیلان بن سلمہ ثقفی (رض) نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے پاس دس عورتیں تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ چار کو رکھ لو اور باقی کو چھوڑ دو۔ (رواہ ابن ماجہ فی کتاب الطلاق)


مکمل تحریر >>