Pages

اتوار، 27 مارچ، 2016

حقوق انسانی کا پہلا منشور اسلام نے جاری کیا

حقوق انسانی کا پہلا منشور اسلام نے جاری کیا
 عام طور پر دو سو برس قبل برپا ہونے والے ’’انقلابِ فرانس‘‘ کے اس اعلان کو انسانی حقوق کا سب سے پہلا اعلان کہاجاتا ہے جس میں تمام انسانوں کی آزادی ، مساوی حقوق اور تحریر وتقریر کی آزادی کو اولیت دی گئی ہے، اس کے بعد ۱۹۴۸ء میں عالمی ادارے اقوام متحدہ نے حقوق انسانی کی فہرست پر ازسر نو توجہ دی اور تیس دفعات پر مشتمل ’’انسانی حقوق کا ایک عالمی منشور منظور کیا جس کا لب لباب یہ ہے کہ ’’آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے بنیادی طور پر تمام انسانوں کے حقوق ومراتب یکساں ہیں۔
مذہب ذات پات یا جنس ورنگ کی بنیاد پر کوئی شخص امتیازی یا ترجیحی سلوک کا حقدار نہیں، اسی طرح انسانوں کی خرید وفروخت ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک یا اہانت آمیز رویہ اپنایا نہیں جاسکتا وغیرہ لیکن اسلام نے اس سے چودہ سو برس قبل ہی انسانی حقوق کا کامل ومکمل اعلان کردیا تھا اور ایک ایسے دور میں کیا تھا جب ہر طرف جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اور انسانی حقوق سے دنیا قطعی نابلد وناواقف تھی ، اس وقت طاقت واقتدار ہی حق کا معیار سمجھاجاتا تھا۔ شخصی آزادی کا تصور بھی نہ تھا اور کمزور کو طاقتور کے آگے لب کشائی کی اجازت تک نہ تھی، انسانی حقوق کا یہ پہلا منشور کسی خاص قبیلے، مخصوص قوم یا ملک کیلئے نہ تھا بلکہ بلا تعین وتخصیص پوری دنیا اس کے دائرہ میں سمٹ آئی تھی اور اس منشو ر کا صرف اعلان ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کو عملی جامہ بھی پہنایا گیا جس کی سینکڑوں مثالوں سے تاریخ وسیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ مثلاً ایک مسلمان رسول پاکؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ میرے دونوں بیٹوں کو بھی مسلمان بنالیجئے اس پر سورہ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوتی ہے کہ
’’دین کے مقابلہ میں کسی سختی کی ضرورت نہیں گمراہی اور ہدایت دونوں واضح ہوچکی ہیں جسے جو راستہ پسند ہے اسے وہ اختیارکریگا۔‘‘
اسلام نے صرف عقیدہ کی آزادی کا ہی احترام نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ دوسری آزادیوں مثال کے طور پر عبادت کی آزادی،شخصی آزادی تحریر وتقریر کی آزادی اور سیاسی شہری آزادی کو بھی برت کردکھایا ہے۔ ایک معمولی شخص فرمانروائے وقت سے بھری محفل میں سوال کرسکتا ہے اسی طرح اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے انسانوں کو بتایا کہ وہ برابر ہیں ان کے حقوق وفرائض بھی یکساں ہیں۔ حسب ونسب ،رنگ ونسل، دولت وحیثیت کی بنیاد پر کسی کو کسی پر ترجیح نہیں ہے۔ اسلام میں بزرگی یا برتری کا معیار صرف خدا ترسی اور خدمتِ خلق ہے لہذا قرآن حکیم میں جگہ جگہ اس امر کی نشاندہی کی گئی کہ ’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد آدم اور ایک عورت حوا سے پیدا کیا ہے اور پھر تمہیں مختلف گروہوں اور قبیلوں میں (صرف) اس لئے تقسیم کردیا تھا کہ تم ایک دوسرے کو شناخت کرسکو، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ بزرگی کا معیار صرف خدا ترسی ہے (سورہ حجرات) اسی رہنما اصول کے تحت حضرت بلال حبشیؓ ، حضرت ابوبکر صدیقؓ جیسے اعلیٰ نسب قریشی کے بھائی بن گئے۔ حضرت صہیب رومیؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ تمام مسلمانوں کے ہم پلہ قرار پائے۔
اسلام نے جہاں مساوات کا اعلان کیا وہیں یہ بھی کہا کہ ہر مسلمان کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے بلکہ تعلیم کو اس نے فرض قرار دیکر ایک امتیازی روایت کی بنیاد ڈالی۔ اسلام سے پہلے کسی ملک وقوم نے تعلیم کو فرض قرار نہیں دیاتھا۔ مگر حضور پاک ﷺ کا فرمان ہے ’’علم حاصل کرنا ہرمومن مردوعورت پر فرض ہے‘‘ قرآن حکیم میں بھی اس کی تاکید آئی ہے۔ اور جس کی ہر مسلمان کو شدید ضرورت ہے۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔