Pages

بدھ، 11 مارچ، 2015

حجر اسود کو بوسہ دینے کا راز

ہماری پچھلی پوسٹ حجر اسود کو بوسہ دینے کی وجہ میں ہم نے اس کو بوسہ دینے کی وجہ بتلائی تھی اب یہاں مزید تفصیل دلائل کے ساتھ موجود ہے

حجر اسود کو بوسہ دینے کا راز
       میں تبرعاً اس کا راز بھی بتلائے دیتا ہوں، حجر  اسود  کو بوسہ دینے کے راز کے متعلق میں کہہ چکا ہوں کہ اس کا منشاء عظمت و عبادت نہیں بلکہ محض محبت کا منشاء ہے، چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو مجمع عام میں ظاہر کردیا، ایک بار آپ طواف کر رہے تھے اس وقت کچھ لوگ دیہات کے موجود تھے آپ رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ کا ارادہ کیا تو حجر اسود کے پاس ذرا ٹھہرے اور فرمایا
"میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے جو نہ کچھ نفع دے سکتا ہے اور نہ ضرر دے سکتا ہے اور اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا، کیا خشک معاملہ کیا ہے، حجر کے ساتھ، بھلا اگر مسلمان کا یہ معبود ہوتا تھا تو کیا اس سے بھی خطاب کیا جاتا کہ نہ تو نفع دے سکتا ہے، نہ ضرر پہنچا سکتا ہے۔(صحیح البخاری 1605)
 اس سے صاف معلوم ہوگی کہ اس تقبیل(بوسہ لینے) کا منشاء محض محبت کی وجہ سے ہے کہ حضور صلی اللہ  علیہ وسلم نے اس کو بوسہ دیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فضلہ بھی کسی جگہ گرا ہو تو ہم کو اس جگہ سے محبت ہوگی چہ جائیکہ وہ جگہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ لگے ہوں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ کا دہن مبارک لگا ہو!!!
بامید آنکہ جانا روزے رسیدہ باشد
باخاک آستانش درایم جبہ سائی
       رہا کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کیوں بوسہ دیا؟ اس سوال کا کسی کو حق نہیں اور نہ ہم کو اس کی وجہ بتلانا ضروری ہے، ہاں اتنی بات یقینی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور عبادت و عظمت  کے بوسہ نہیں دیا، ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بے باکی کے ساتھ " لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ " نہ فرماتے، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج شناس تھے جب انہوں نے حجر کے ساتھ یہ معاملہ کیا تو یقیناً اس تقبیل (بوسہ لینے) کا منشاء عبادت ہرگز نہیں اور تبرعاً اس کا جواب بھی بتالائے دیتا ہوں کہ ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہ حجر کے اندر تجلیت الٰہیہ کا بہ نسبت دوسرے حصص بیت کے زیادہ ہونا منکشف ہوا ہو، پس منشاء اس تقبیل کا تلبس زائد ہے تجلیات الٰہیہ سے اور جس چیز کو محبوب کے انوار سے تلبس ہو اس کا بوسہ دینا اقتضائے محبت ہے۔

(اشرف الجواب)

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔