Pages

جمعرات، 18 فروری، 2016

کافر قیدیوں کو غلام باندی بنانے میں حکمت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کافر قیدیوں کو غلام باندی بنانے میں حکمت :
جب مسلمان جہاد کرتے تھے تو جن کافروں کو قید کرلیا جاتا تھا ان میں مرد بھی ہوتے تھے اور عورتیں بھی۔ امیر المؤمنین کو اختیار تھا کہ ان کو جہاد کرنے والوں میں تقسیم کردے جب ان مجاہدین میں قیدی تقسیم ہوجاتے تھے تو ان کی ملکیت میں آ جاتے تھے اس لیے ان کا بیچنا، فروخت کرنا جائز تھا اور یہ غلامی کفر کی سزا ہے اور اس میں ان غلاموں کا یہ نفع ہے کہ دار الاسلام میں رہیں گے تو مسلمانوں کے اسلامی معاشرہ سے مانوس ہوں گے اذانیں سنیں گے، نمازیں دیکھیں گے، اور اسلام قبول کریں گے، اور آخرت کے دائمی عذاب سے بچ جائیں گے اور حکومت اسلامیہ کا یہ نفع ہے کہ جب ان کو مجاہدین میں تقسیم کردیا تو ان کی قوت بھی ٹوٹ گئی جس سے بغاوت کا اندیشہ تھا اور بیت المال پر ان قیدیوں کو کھلانے پلانے کا بار بھی نہ پڑا، اگر ان کو جیل میں رکھتے تو بغاوت کا بھی خطرہ تھا۔ آپس میں مشورہ کرتے رہتے اور دار الحرب سے تعلقات پید کرکے دار الاسلام میں فساد کا باعث بن جاتے اور بیت المال کو روزانہ ان لوگوں پر بھاری رقم خرچ کرنی پڑتی۔ دوسری طرف مجاہدین کو نفع ہوا ان کو کام کاج کرنے والے افراد مل گئے اور چونکہ یہ لوگ اپنے مالکوں کا کام کریں گے اس لیے ان کو کھلانا پلانا بھی ناگوار نہ ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ جو غلام تمہارے احوال کے مناسب اور موافق ہو اسے اسی میں سے کھلاؤ جس میں سے تم کھاتے ہو اور اسی میں سے پہناؤ جس میں سے تم پہنتے ہو اور جو تمہارے احوال کے مناسب نہ ہو اس کو بیچ دو اور اللہ کی مخلوق کو عذاب نہ دو، (رواہ احمد و ابوداؤد کمافی المشکوٰۃ صفحہ ٢٩٢)
مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے احوال کے موافق اور مناسب نہ ہوگا تو خواہ مخواہ اس کی مار پیٹ کی طرف بھی طبیعت چلے گی اور کھلانے پلانے میں بھی کوتاہی ہوگی اسے بیچ دو گے تو انشاء اللہ تعالیٰ دوسری جگہ اس کے حال کے مناسب مل جائے گی جب غلام اسی کھانے میں سے کھائے گا جو گھر والوں کے لیے پکایا گیا اور اسی کپڑے میں سے پہنے گا جو دوسرے گھر والے پہنتے ہیں اور اس کے علاوہ روا داری، دلداری اور حسن معاشرت کے مظاہرے اس کے سامنے آئیں گے تو حسن و خوبی کے برتاؤ کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہ کرے گا اور رفتہ رفتہ اسلام قبول کرنے کے قریب تر آ جائے گا۔
اسلام کی تاریخ میں بڑے بڑے محدثین ایسے حضرات گزرے ہیں جو غلام تھے۔ یا باندیوں کی اولاد تھے۔ حدیث کی کتابوں میں غلاموں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ گزارہ کرنے اور ان کے حقوق کی نگہداشت کرنے کے بارے میں مفصل ہدایات موجود ہیں۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض الوفات میں بار بار یہ فرمایا الصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (کہ تم نماز کا دھیان رکھنا اور جو تمہارے غلام اور باندیاں ہو ان کے حقوق کی نگہداشت کرنا) (رواہ احمد صفحہ ٨١٧: ج ٣) یہ ہے وہ غلامی جسے یورپ کے متعصب جاہلوں نے اعتراضات کا نشانہ بنا رکھا ہے۔


0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔