Pages

اتوار، 24 نومبر، 2013

غلامی کا مسئلہ کیا اسلام میں قابل اعتراض ہے؟


غلامی کا مسئلہ کیا اسلام میں  قابل اعتراض ہے؟
جواب:-
      معاشرت میں اسلام کا یہ حکم ہے کہ اپنے غلاموں کی ستر خطائیں روز معاف کیا کرو اس سے زیادہ خطائیں ہوں تو کچھ سزا دو، بھلا غلاموں کے ساتھ یہ برتاؤ کوئی غیر مسلم کر سکتا ہے؟ غلام تو کجا اولاد کے ساتھ بھی کوئی ایسا برتاؤ نہیں کرسکتا، مگر افسوس ! باوجود اس قدر رعایت کے پھر بھی مخالفوں کو اسلام کے مسئلہ غلامی پر اعتراض ہے، میں کہتا ہوں کہ اسلام نے تو غلاموں کے ساتھ وہ برتاؤ کیا ہے کہ ان کے باب بھی انکے ساتھ ویسا نہیں کر سکتے تھے.
مسئلہ غلامی کی اصل:
      مسئلہ غلامی کی اصل یہ ہے کہ اس میں مخلوق کی جان بچائی گی ہے، کیونکہ جب ایک دشمن مسلمانوں کے مقابلے میں فوج کشی کرتا ہو اور اس کے ہزاروں لاکھوں آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں میں قید ہوں، تو اب ہمیں کوئی بتلا دے کہ ان قیدیوں کو کیا کرنا چاہیے؟
ایک صورت تو یہ ہے کہ ان سب کو رہا کردئیے جائے، اس کا حماقت ہونا ظاہرہے کہ دشمن کے ہزاروں لاکھوں کی تعداد کو پھر اپنے مقابلے کے لئے مستعد کردیا،
ایک صورت یہ ہے کہ سب کو فورا قتل کردیا جائے، اگر اسلام میں ایسا کیا جاتا تو مخالفین جتنا شور و غل مسئلہ غلامی پر کرتے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ اس وقت کرتے کہ دیکھئے کہ کیا سخت حکم ہے کہ قیدیوں کو فورا قتل کردیا گیا؟
 ایک صورت یہ ہے کہ سب کو کسی جیل خانے میں  بند کر دیا جائے  اور وہاں رکھ کر ان کو روٹی کپڑا دیا جائے، یہ صورت گو کہ آج کل کی بعض متمدن سلطنتوں میں پسندیدہ ہے مگر اس میں چند خرابیاں بھی ہیں، ایک یہ کہ اس سے سلطنت پر بڑا بار عظیم پڑتا ہے اور ان سے کمائی کرنا خود غرضی کی صورت ہے،پھر جیل خانے کی حفاظت کے لئے ایک خاص فوج مقرر کرنا پڑتی ہے، قیدیوں کی ضروریات کے لیے بہت سے آدمی ملازم رکھے جاتے ہیں . یہ سارا عملہ بے کار ہو جاتا ہے ، سلطنت کے کسی اور کام میں نہیں آسکتا قیدیوں ہی کی حفاظت کا ہو کر رہتا ہے.

جیل میں رکھ کر راحت پہنچانا
      پھر تجربہ شاہد ہے کہ جیل خانے میں رکھ کر آپ چاہے قیدیوں کو کتنی ہی راحت پہنچائیں ، ان کی ان کو کچھ قدر نہیں ہوتی کیونکہ آزادی سلب ہونے کا غیظ ان کو اس قدر ہوتا ہے کہ وہ آپکی ساری خاطر مدارات کو بے کار سمجھتے ہیں، تو سلطنت کا اتنا خرچ بھی ہوا اور سب بے سود کہ اس سے دشمن کی دشمنی میں کمی نہ آئے، پھر قید خانے میں ہزاروں لاکھوں قیدی ہوتے ہیں وہ سب کے سب علمی اور تمدنی ترقی سے بلکل محروم رہتے ہیں اور یہ سب بڑا ظلم ہے،
اسلام نے اس کے بجائے یہ حکم دیا کہ جتنے قیدی گرفتار ہوں سب لشکر والوں کو تقسیم کردو، ایک گھر میں ایک غلام کا خرچ معلوم بھی نہ ہوگا اور سلطنت بار عظیم سے بچ جائے گی ، پھر چونکہ ہر شخص کو اپنے قیدی سے خدمات لینے کا حق بھی ہے اس لئے وہ اسکو روٹی کپڑا جو کچھ دے گا ، اس پر گراں نہ ہوگا، وہ سمجھے گا کہ میں تنخواہ دے کر نوکر رکھتا  جب بھی خرچ ہوتا، اب اس سے خدمت لوں گا اور اسے معاوزہ میں روٹی کپڑا دوں گا، پھر چونکہ غلام کو چلنے پھرنے سیر و تفریح کرنے کی آزادی ہوتی ہے ، قید خانے میں بند نہیں ہوتا ، اس لئے اسکو اپنے آقا پر غیظ نہیں ہوتا، جو جیل خانہ میں کے قیدی کو ہوتا ہے اس حالت میں اگر آقا نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو اس کا احسان دل میں گھر کر لیتا ہے اور وہ اس کے گھر کو اپنا گھر ، اس کے گھر والوں کو اپنا عزیز سمجھنے لگاتا ہے. یہ سب باتیں ہی نہیں بلکہ واقعات ہیں، پھر اس صورت میں غلام علمی اور تمدنی ترقی بھی تو کرسکتا ہے، کیونکہ جب آقا غلام میں اتحاد ہو جاتا ہے تو آقا خود چاہتا ہے کہ میرا غلام مہذب و شائستہ ہو، وہ اس کو تعلیم بھی دلاتا ہے صنعت و حرفت بھی سکھاتا ہے ، چنانچہ اسلام میں صد ہا علماء زہاد ایسے ہوئے ہیں جو اصل میں موالی (آزاد کردہ غلام) تھے، غلاموں کے طبقہ نے تمام علوم میں ترقی حاصل کی، بلکہ غلاموں کو بعض دفعہ بادشاہت بھی نصیب ہوتی تھی.

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔