Pages

جمعہ، 22 نومبر، 2013

الله رب العزت کے وجود کے دلائل


بسم الله الرحمن الرحیم
وجود باری عز اسمہ
ابتداۓ آفرینش سے لے کر اس وقت تک عالم کے کسی خطے پر کوئی لحظہ اور لمحہ ایسا نہیں گزرا کے وہاں کے جن و انس اپنے پروردگار کو نہ جانتے ہوں اور اپنے لئے کسی خالق کا اقرار اور اعتراف نہ کرتے ہوں ہر زمانہ میں لاکھوں انسان ایسے گزرے ہیں اور اب بھی ہیں کہ جنہوں نے علم کا نام و نشان بھی نہیں سنا مگر یہ ضرور جانتے ہیں کہ ہمارا ایک خالق اور پروردگار ہے اور جب دنیا کے اسباب و وسائل سے مجبور اور مضطر ہو جاتے ہیں اس وقت خدا کو پکارتے ہیں. الله تعالى انکی مضطربانہ دوا کو سنتا ہے بڑے سے بڑا حادثہ دفعتا دور ہوجاتا ہے اور تمام مادی اور ظاہری اسباب و وسائل کا یک لخت خاتمہ ہوجاتا ہے. اور یک یک نہ امیدی کے بعد امید اور آرزو نظروں کے سامنے آجاتی ہے.
جیسا کہ الله تعالى نے فرمایا
أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ
(القرآن ٢٧/٦٢)
ترجمہ :"کون ہے کہ جو مضطر کی دعا کو قبول کرتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کرتا ہے."
اور اسی وجیہ سے کہ حق تعالى شانہ کی معرفت فطری ہے جو لوگوں کی فطرت اور جبلت مے مرکوز ہے. حق جل و علا ارشاد فرماتے ہیں
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
(القرآن ٣٠/٣٠)
ترجمہ:"اپنے چہرے کو الله کی عبادت کے لئے سیدھا کر ایک طرف ہوکر اور الله کی اس فطرت کو لازم پکڑ جس پر الله نے لوگوں کو پیدا کیا ہے الله کی بنائی ہوئی چیز میں تبدیلی ممکن نہیں یہی دین جو فطرت کے مطابق ہے ٹھیک دین ہے."
الغرض وجود باری عز شانہ کا اقرار بدیہی اور فطری امر ہے اور تمام بنی نوع انسان کا اجماعی مسلک ہے اسی وجیہ سے حضرات انبیاء علیھم السلام جا نصب العین ہمیشہ توحید کی دعوت رہی اور جن کو سرے ہی سے اپنے خالق میں شک پیش آیا. ان سے نہایت تعجب سے یہ خطب فرمایا.

قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
(القرآن ١٤/١٠)
ترجمہ: " ان کے رسولوں نے کہا کہ کیا تم کو الله کے بارے میں بھی کسی قسم کا کوئی شک و شبہ ہے کہ جو آسمانوں اور زمینوں کا بنانے والا ہے."
        حق تو یہ ہے کہ حق تعالى شانہ کا وجود آفتاب اور مہتاب سے بڑھ کر بدیہی ہے اور روشن ہے کسی دلیل اور برہان کا موہتاج نہیں بلکہ اسی کا وجود کائنات کے لئے دلیل اور برہان ہے لیکن مزید اطمینان کے لئے دلائل بھی ذکر کیے دیتے ہیں. وہ ھوا هذا
        کون شخص ہے کہ یہ نہ جانتا ہو کہ ایک زمانہ وہ تھا کے ہم پردۂ عدم میں مستور تھے اور عن قریب پھر ایک ایسا ہی زمانہ آنے والا ہے کہ اسی پردۂ عدم میں جا چھپیں گے۔ ہمارا وجود دو عدموں میں اس طرح گھرا ہوا ہے جس طرح نور زمین شب آئندہ کی دو ظلمتوں میں محصور ہے زمین پر نور کی آمد و رفت با آواز بلند کہ رہی ہے کہ یہ نور زمین کا ذاتی نہیں مستعار اور عطاء غیر ہے اگر یہ نور زمین کا ذاتی ہوتا تو کبھی زائل نہ ہوتا. پس اسی طرح موت و حیات کی کشمکش اور وجود کی آمد و رفت اس امر کی واضح دلیل ہے کہ کائنات کا وجود ذاتی نہیں ورنہ عدم اور زوال کو کبھی قبول نہیں کرتا. بلکہ جس طرح زمین کی روشنی آفتاب کا فیض ہے اور پانی کی گرمی آگ کا فیض ہے. اسی طرح ہمارا وجود بھی کسی ایسی ذات کا فیض اور عطیہ ہوگا کہ جس کا وجود اصلی اور خانہ زاد ہو اور وجود اس ذات کے لئے اس طرح لازم ہو جیسے آفتاب کے لئے نور اور آگ کے لئے حرارت اور چار کے لئے زوجیت اور تین کے لئے فردیت لازم ہے. یہ ناممکن ہے کہ آفتاب ہو اور نور نہ ہو، آگ ہو اور حرارت نہ ہو ، چار اور پانچ ہوں اور زوجیت اور فردیت نہ ہو. اسی موجود اصلی کو اہل اسلام الله تعالى اور واجب الوجود کہتے ہیں اس آیت میں اسی دلیل کی طرف اشارہ ہے.
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
(القرآن ٢/٢٨)
ترجمہ: " تم الله کا کیسے انکار کرتے ہو حالانکہ تم پہلے موجود نہ تھے پس خدا نے تم کو حیات عطا کی اور پھر تم کو فنا کردےگا."
        حکیم فرفوریوس کا مقولہ ہے کہ :
        "جو امور بداحت عقل سے ثابت ہیں منجملہ انکے ایک مسئلہ ثبوت صانع کا بھی ہے جتنے حق پسند حکماء گزرے ہیں وہ اس مسئلہ کی بداحت کے قائل ہیں اور جو لوگ ثبوت صانع  کی بداحت کے قائل نہیں وہ قبل ذکر نہیں اور نہ زمرہ حکماء مے شمار کیے جانے کے مستحق ہیں."
        علامہ احمد بن مسکویہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ:
                " حکماء مے سے کسی سے بھی یہ منقول نہیں کہ اس نے ثبوت صانع کا انکار کیا ہو اور نہ کسی نے اسکا انکار کیا کہ جو صفات کمال انسان اور بشر مے بقدر طاقت بشری پائی جاتی ہیں جیسے جود و کرم ، قدرت و حکمت وہ باری تعالى میں علی وجہ ال کمال پائی جاتی ہیں."
        میں کہتا ہوں کہ آج تک کسی عاقل اور سمجھدار نے وجود صانع (بنانے والے) کا انکار نہیں کیا اور جب کبھی کسی نادان نے وجود صانع کا انکار کیا تو عقلاء(عقلمدنوں) نے اس کو مہمل اور ساقط الاعتبار گردآنا، جو شخص عقلاء عالم کے متفقہ فیصلہ کا انکار کرے اسکو سن لینا چاہئے کہ وہ عقل سے بے بہرہ ہے.
        علامہ احمد بن مسکویہ رحمہ الله نے الفوز الاصغر میں وجود صانع پر ٢ دلیلیں ذکر فرمائی ہیں:
اول: یہ کہ ہر جسم طبعی کے لئے حرکت ضروری ہے کوئی جسم طبعی ایسا نہیں کہ جو متحرک نہ ہو اور ہر متحرک(حرکت کرنے والا) کے لئے ایک محرک (حرکت دینے والا) کا ہونا ضروری اور لازمی ہے کہ جس پر تمام حرکات کا سلسلہ ختم ہوتا ہو ، وہی متحرک اول ان تمام اجسام و اعیان کا خالق اور صانع(بنانے والا) ہوگا. اور چونکہ یہ امر بدیہی(روشن/ظاہر) ہے کہ محرک متحرک کے سوا اور علاوہ ہونا چاہئے اس لئے یہ ثابت ہو گیا کہ وہ محرک اول متحرک نہیں ہوسکتا . کیو کہ محرک اولا کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ حرکت سے پاک اور منزہ ہو ورنہ اگر محرک نکل آیا تو جس کو محرک اول فرض کیا تھا وو محرک اول نہ رہاہ اسکی اولیت جاتی رہی . نیز اسے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ محرک اوک جسم نہیں ہوسکتا . اسلئے کہ ہر جسم کے لئے متحرک ہونا لازمی اور ضروری ہے.

دوم: یہ کہ عالم کا تغیر اور تبدل ، فناء اور زوال اس امر کا شاہد ہے کہ عالم کی کسی شئے کا وجود بالذات نہیں، جس شیے کا بھی وجود ہے وہ بالعرض ہی ہے. اور تمام حکماء کا اس پر اتفاق ہے کہ جو چیز بھی کسی شئے میں بالعرض پائی جائے گی وہ کسی شئے میں بالذات ضرور پائی جائے گی. کیونکہ جو شئے عارضی ہوتی ہے وہ کسی کا اثر ہوتی ہے اور ہر اثر حرکت ہے لہذا ضروری ہوا کہ ان تمام اثر اور حرکات کا سلسلہ ایسے موثر حقیقی اور محرک اول پر جاکر ختم ہو کہ جو کسی کا اثر نہ قبول کرتا ہو بلکہ وہی سب میں موثر ہو اور کوئی اثر اور کوئی متاثر اس موثر حقیقی کے حیطہ(احاطہ) تاثیر سے باہر نہ ہو جو بھی موجود ہو وہ اسی کی فیض تاثیر سے وجود میں آیا ہو.
        سب جانتے ہیں کہ اعراض کا وجود ذاتی  نہیں بلکہ جواہر اور اجسام کے سہارے سے ہے اگر اعراض کا جواہر سے تعلق منقطع ہو جائے تو تمام اعراض اسی وقت معدوم اور فنا ہو جاینگے ایک لمحہ کے لئے باقی نہ رہ سکتے. کیونکہ اعراض کا وجود عرضی یعنی ناقص اور ضعیف ہے جواہر کے تابع ہے مگر اعراض کے معدوم ہونے سے جواہر کا معدوم لازم نہیں.
        پاس جس طرح جواہر کے مقابلے میں اعراض کا وجود محض عارضی ہے . اسی طرح واجب الوجود کے مقابلے میں جواہر اور اجسام کے وجود کو سمجھ کہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا. اگر ایک لمحہ کے لئے اس بے نیاز واجب الوجود کے فیض تاثیر کو ان جواہر اور اجسام سے منقطع فرض کر لیا جائے تو یک لخت تمام کے تمام معدوم ہوجائیں اور فنا کے گھٹ اتر جائیں کسی جوہر اور جسم کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے اسی کی فیض تاثیر سے انکا وجود قیام ہے.
        جب یہ ثابت ہوگیا کہ کائنات میں جو بھی وجود ہے وو اسی کا عنایات کیا ہوا ہے تو یہ بھی ثابت ہوا کہ وجود اس مبدا فیاض کا ذاتی ہوگا کہ جب اس کی ذات کا تصور کیا جائے تو ساتھ ہی ساتھ اس کے وجود کا بھی تصور ہوتا ہو اسی وجہ سے اسی کو واجب الوجود کہتے ہیں.

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔