Pages

جمعہ، 20 نومبر، 2015

عیسیٰ علیہ السلام سے محمد رسول اللہ ﷺ افضل

عیسائی پادری کی طرف سے چند سوالات جس سے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کا اجمالاً جواب
آپ کا مکتوب موصول ہوا جو چند سوالات پر مشتمل ہے جن کا حاصل وہ چند وجوہ ہیں جن کی بنا پر بعض عیسائی مبلغوں نے حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کی فضیلت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ پر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح آنحضرت ﷺ کی اس فضیلت و برتری پر جو حق تعالیٰ نے آپ کو تمام انبیاء پر عنایت فرمائی ہے اعتراضات کئے ہیں ان تمام سوالات یا اعتراضات کے جواب سے قبل ایک بات تمہید کے طور پر سمجھ لینا ضروری ہے وہ یہ کہ مذکورہ سوالات کے ضمن میں جو تمام فضائل مسیح بن مریم علیہ السلام کے ذکر کئے ہیں وہ تمام قرآن شریف سے ہی ثابت ہیں۔ اس قرآن سے جو تمام عالم نے محمد رسول اللہ ﷺ کی زبان سے سنا تو یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ان سب فضیلتوں کی نسبت آنحضرت ﷺ کی جانب ہے اور انہیں کے واسطے سے دنیا کو مسیح بن مریم کے یہ کمالات معلوم ہوئے گویا ان فضائل اور کمالات کی بخشش و عنایت بارگاہ نبوت محمد ﷺ سے ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ محسن اس سے افضل ہے جس پر احسان کیا جارہا ہے پھر عقلاً یہ بات بھی مسلّم ہے کہ کسی کے کمال کا اظہار خود اس ظاہر کرنے والے کے کمال کی دلیل ہے کہ اس ذات کو کسی کے کمال و فضیلت کے بیان اور اظہار میں کوئی جھجک اور ادنیٰ تأمّل بھی نہیں۔ یہ ایثار و احسان اس کی طرف سے ہوتا ہے جس کی فضیلت دنیا میں مسلم ہو۔
            اگر قرآن ان فضائل کو بیان نہ کرتا تو دنیا کو مسیح بن مریم علیہ السلام اور ان کی والدہ کی فضیلت تو کیا معلوم ہوتی اہل کتاب کی محرف اور بے بنیاد باتوں اور بیہودہ خیالات کی اشاعت کی وجہ سے تو آنے والی نسلیں نہ معلوم مریم علیہا السلام اور مسیح بن مریم علیہ السلام کے متعلق کیا کیا نظریات قائم کرتیں۔ تمام عیسائیوں پر یہ احسان صرف قرآن کریم اور صاحبِ قرآں محمد رسول اللہﷺ کا ہے کہ سیدتنا مریم علیہا السلام کی پاکدامنی اور  نساء عالمین(اس زمانے کی عورتیں مراد ہیں جس زمانے میں مریم علیہا السلام موجود تھیں) پر ان کی برتری کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور کمالات نبوت سے دنیا کو روشناس کرایا۔اور ان کے دشمنوں کے جو لغو اعتراضات اور بیہودہ خیالات تھے ان کی بڑی  تفصیل و وضاحت سے تردید کی  اگر قرآن اور صاحب قرآن کا یہ احسان عظیم نہ ہوتا تو دنیا مسیح علیہ السلام کی نبوت و فضیلت تو درکنار ان کی اور ان کی والدہ کی پاکدامنی اور شرافت نسبی سے بھی ناواقف ہی رہتی۔
            بائبل اور انجیل سے دنیا کو مسیحی مذہب سے متعلق سوائے اوہام و شکوک اور چند ناقابل فہم اور خلافِ عقل باتوں کے اور کچھ نہ ملتا۔ یا پھر کچھ ایسی ہی چیزیں پائی جاتیں جو عام بازاری،شہوت پرست،عیاش اور بد اطوار انسان کے سوا کسی میں قابل تصور نہیں ہوسکتیں۔ ان فحش اور غیر مہذب حوالوں کے لئے مقدمہ تفسیر حقانی از  صفحہ ۵۷۶ ملاحظہ کیا جائے۔ وہ فحش تشبیہات ہیں کہ نہ معلوم پادری لوگ گرجا میں کس طرح ان کو سناتے ہوں گے یا شرم سے اپنی آنکھیں نیچی کرلیتے ہوں گے ۔ عیسائیوں کو اپنی کتاب سے اگر کچھ ملتا تو وہ یہی کہ ان کے پیغمبر بیت اللحم کے اصطبل کے اندر پیدا ہوئے جیسا کہ انجیل لوقا کے دوسرے باب میں تصریح ہے۔ مسیح بیت اللحم کے اندر پیدا ہوئے:- یا پھر یہ نظر آتا کہ یسوع مسیح کی پیدائش یوں ہوئی کہ جب ان کی ماں مریم کی منگنی یوسف سے ہوئی تو ان کے جمع ہونے سے پہلے وہ حاملہ پائی گئی۔ تب ان کے شوہر یوسف نے چاہا کہ انھیں چپکے سے چھوڑ دیں الخ بحوالہ تفسیر حقانی  ج۲ ص۵۸(اس بیان کو مد نظر رکھتے ہوئے مسیح بن مریم کا بزعم نصاریٰ خدا کا بیٹا ہونا تو کیا ثابت ہوگا۔ صحیح نسب کا مسئلہ حل ہونا مشکل ہوگا۔)
            اس کے مقابل قرآن کریم جس عظمت و احترام سے حضرت مسیح کی ولادت اور پاکدامنی اور نزاہت کا ذکر کرتا ہے، قرآن کی ان آیات کو دیکھ کر ہر انسان اپنے قلب کو ہر دو کی عظمت و فضیلت و عفت و پاکدامنی سے لبریز پاتا ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے سورہ مریم،آل عمران اور سورہ تحریم) اور اگر عیسائیوں کو اپنی کتاب میں اپنے پیغمبر کے بارے میں کچھ ملتا ہے تو وہ ایسے شرمناک الفاظ ہیں کہ کوئی عاقل انسان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ان اقوال کی نسبت نہیں کرسکتا مثلاً انجیل یوحنّا کے باب ۱۶ میں حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے۔"مجھ سے پہلے جس قدر انبیاء آئے سب چور و رہزن تھے، پھر اسی قول کی تقلید کرتے ہوئے پولوس مقدس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جانب میں کیا گستاخی کرتے ہیں۔ ہم موسیٰ کی مانند عمل نہیں کرتے جس نے اپنے چہرے پر پردہ ڈالا تھا تاکہ بنی اسرائیل بخوبی نہ دیکھ سکیں الخ۔"
            معاذ اللہ کیا یہ اقوال ایسے ہیں کہ کسی پیغمبر کی طرف ان کی نسبت کی جائے۔ الغرض قرآن کا یہ بڑا احسان براہ راست نصاری پر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کی حقیقی فضیلت اور برتری کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور کمالات نبوت اور دلائل نبوت کو بھی بیان کردیا بس یہی ایک سبب بہت کافی ہے محمد رسول اللہ ﷺ کے تمام انبیاء سے افضل ہونے کے لئے کہ آپ کی کتاب کے ذریعے خدا کے پیغمبروں کی سچی اور پاکیزہ شخصیت پہچانی جاتی ہے۔ جس طرح قرآن دوسرے انبیاء کے فضائل کو واضح طریق پر بیان کرتا ہے ایسا ہی مسیح علیہ السلام تک جتنے پیغمبر گزرے ہیں سب کے فضائل ایک سے ایک نرالے انداز میں قرآن بیان کررہا ہے۔

            یہ تمام فضائل کا ذکر اپنے ایک ایک حرف کے ساتھ گواہی دے رہا ہے کہ ان سب فضیلتوں سے بڑھ کر خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ کی فضیلت ہے جن کی وحی انبیاء علیہم السلام کی نبوت ان کے کمالات اور معجزات پر ایک مہر ثبوت ہے۔
مکمل تحریر >>

بدھ، 11 نومبر، 2015

افضلیت فخر دو عالم ﷺ

ایک عیسائی کی لمبی تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا اس میں اس بیچارے نے یہ کوشش کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام قرآن میں محمد ﷺ کے نام سے زیادہ آیا نیز قرآن میں کسی عورت کا نام نہیں آیا لیکن حضرت مریم کا نام آیا اور ان کے نام کی ایک سورت بھی قرآن میں موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پورے مضمون میں بیچارے نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد ﷺ سے افضل ہیں۔
مختصراً چند باتیں اس سلسلہ میں
۱۔ قرآن کریم محمد ﷺ پر نازل ہوا تو اور وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے تو عرض یہ ہے کہ گفتگو ہوتی ہے تو سیکنڈ پرسن( second person)  کا نام نہیں لیا جاتا ہے بلکہ تیسرے شخص کا نام زیادہ لیا جاتا ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو یہ فضیلت دی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتہ حضور ﷺ پر درود نازل فرماتے ہیں، یہ فضیلت کسی نبی کے اندر نہیں پائی جاتی، اللہ تعالیٰ نے اسریٰ و معراج حضور ﷺ کو عطا فرمائی یہ فضیلت بھی کسی نبی کے حصہ میں نہیں آئی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی تمام تر فضیلتوں کے باوجود وہ آخری زمانہ میں محمدِ عربی ﷺ کے امتی بن کر اس امت میں بھیجے جائیں گے۔ اس سے بھی فخر دو عالم ﷺ کی فضیلت دیگر انبیاء علیہم السلام والتسلیم پر ثابت ہوتی ہے۔ مزید بتہ سے فضائل ہیں۔
۲۔ حضرت مریم پر یہودی بہتان باندھتے تھے جس کا جواب قرآنِ کریم نے دیا ہے اس لئے حضرت مریم  کا ذکر قرآن میں بیشمار جگہ پر آیا ہے۔ یہ بھی عیسائیوں کے لئے سوچنے سمجھنے کی بات ہے کہ جس کا جواب عیسائی نہ دے سکے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے ان بہتانات کا جواب اپنے کلام میں دے دیا.
مزید دلچسپی رکھنے والے حضرات یہاں پر ان کے جوابات کو تفصیلاً پڑھ سکتے ہیں۔

اللہ پاک تمام انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام پر رحمتیں نازل فرمائیں۔

آمین۔
مکمل تحریر >>

ہفتہ، 19 ستمبر، 2015

قرآن کا چیلینج رہتی دنیا تک- ملحدین کی نقاب کشائی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم، قرآن ِ کریم کا چیلینج رہتی دینا تک پر ملحدین نے آیتوں کو اپنے سیاق و سباق سے نکال کر جواب دینے کی ناکام کوشش کی ہے کہ قرآن کے اس چیلینج کے اس جیسی ایک سورت بھی لاکر دکھادو کا جواب مشرکینِ مکہ کے شعراء نے دیا ہے۔
قرآن کریم ہی کے انداز میں ہمارا ان ملحدوں سے سوال ہے
 هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو،
یہ بات ثابت کردو کہ واقعی مشرکینِ مکہ نے جواب دیا ہے اور اس قرآن عظیم جیسی کوئی سورت ان لوگوں نے بھی لکھی تھی۔
اٹکل پچوؤں سے تمھاری بات سچ ہونے والی نہیں ہے۔ تمھارے جھوٹے دعوؤں میں سے ایک اور جھوٹ عیاں ہوگیا ہے۔
ایسا کیسے ممکن ہے کہ مشرکینِ مکہ کے جواب دینے کے باوجود اور نعوذ باللہ قرآن کے دعوے غلط ہونے کے باوجود بھی مکہ کے لوگ اور عرب کے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس وقت مکہ والوں کے پاس سارے عالم سے لوگ حج کے سیزن میں آتے تھے اور قریش بڑا ہی عظمت والا قبیلہ تھا وہ تو اس کا خوب اشتہار کرتے اور اسلام کے خلاف اتنا عظیم موقعہ ہاتھ سے گوانے کا ان کے پاس کوئی مانع نہیں تھا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ابولہب،ابو جھل وغیرہ وغیرہ اس سنہرے موقعہ کو ہاتھ سے جانے دیتے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ سفیانؓ اس عظیم فتح کے بعد اسلام کے آغوش میں آتے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مکہ والے جو مسلمانوں اور بیغمبرِ اسلام علیہ الصلوٰۃ و سلام کے قتل کے در پر تھے اور بدر،احد،احزاب جیسے عظیم معرکہ ہوئے اور کئی کفار جھنم رسید ہوئے۔ اس سے تو آسان ان کے لئے یہ بات تھی کہ وہ ان آیتوں یا سورتوں کی تشہیر کرتے جس کا تم (اے ملحدو!) دعویٰ کرتے ہو۔
ان جانی و مالی خسارے اٹھانے سے زیادہ اچھا موقعہ اور اسلام کو شکست دینے کا بہترین موقعہ اس سے زیادہ کیا ہوسکتا تھا کہ بیغمرِ اسلام ﷺ نے جو دعویٰ قرآن کریم کے ذریعہ پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس جیسی دس سورتیں لے آو ، اور اس دعوے کے جواب کے بعد قریش اور مشرکین خاموش بیٹھ گئے اور حالت تو  یہ تھی کہ انہیں مسلمانوں پر دست ترس حاصل تھی اور مسلمانوں کو ایذاء رسانی بھی کرتے تھے ۔


الحمد للہ ہمارا دعویٰ ہے کہ آج تک قرآن کریم کے اس چیلینج کو کسی نےبھی پورا نہیں کیا ہے اور نہ کرسکے گا۔
مکمل تحریر >>

منگل، 18 اگست، 2015

اسلام اور آزاد خیالی مکمل

اسلام ................. اور آزاد خیالی
ایک مباحثہ کے دوران میرے ایک رفیق نے کہا کہ تم آزاد خیال نہیں ہو......
میں: وہ کیسے؟
وہ:کیا تم ایک خدا کے وجود پر عقیدہ رکھتے ہو؟
میں: ہاں! یہ میرا ایمان ہے۔
وہ: اور پھر اس کے لئے نمازیں بھی پڑھتے ہو اور روزے بھی رکھتے ہو؟
میں: جی ہاں۔
وہ: تو پھر آپ آزاد خیال (Free Thinker) نہیں ہیں۔
میں: آخر یہ کیوں؟
وہ: آپ ایک نا معقول اور خرافات چیز پر عقیدہ رکھتے ہیں جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔
میں: آپ اور آپ کے ہم خیال کس چیز پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کائنات کا اور زندگی کا خالق کون ہے؟
وہ: فطرت(Nature)
میں: آخر یہ فطرت کیا چیز؟
وہ: فطرت ایک لا محدود مخفی طاقت ہے۔ البتہ حواسِ خمسہ انسایہ کے لئے یہ ممکن ہے کہ اس کے مظاہر و آثار کا ادراک کرسکیں۔
آخر میں مَیں نے کہا کہ میں سمجھ گیا۔ آپ اپنے اس بیان کے ذریعہ ایک نامعلوم مخفی،قادر مطلق پر عقیدے سے ہٹا کر ایک نامعلوم قوت پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر میں اپنے خدا کا انکار کیوں کروں؟ اسی طرح کے ایک دوسرے نامعلوم القوۃ خدا بلکہ جھوٹے خدا کی خاطر۔ آپ مجھ سے میرا وہ خدا کیوں چھیننا چاہتے ہیں جس کی عبدیت میں مجھے امن، سکون اور سلامتی و ایمان جیسی لازوال نعمتیں ملتی ہیں۔ اور اس کے بدلے میں مجھے ایسا خدا دینا چاہتے ہیں جو نہ تو میری کسی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ امن و سکون فراہم کرسکتا ہے۔
            مختصراً یہ ان تمام ترقی پسندوں کاعقیدہ ہے، جو آزادئ خیال کی گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ، آزادئ خیال، ایک خدا کے انکار کے مترادف ایک لفظ ہے لیکن کسی صورت میں بھی اسے آزادئ خیال نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ تو الحاد پرستی ہے۔ جس کی بیناد پر عمارت الحاد کی تعمیر کرتے ہوئے وہ لوگ اسلام پر الزام تراشی کرتے ہیں، حالانکہ انکارِ خدا کے معنی میں آزاد خیالی کو اسلام سختی سے منع کرتا ہے کیوں کہ اسلام الحاد کا دشمن ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آزاد خیالی اور الحاد دونوں ہم معنی لفظ ہیں اور ایک ہی چیز ہیں اور کیا الحاد درحقیقت آزاد خیالی کی پہلی شرط ہے۔ معاملہ اصلاً یوں ہے کہ مغرب کے آزاد خیالوں کی تاریخ سے غلط طور پر متاثر ہو کر یہ لوگ اس حقیقت کی طرف نظریں دوڑاتے ہیں جب کہ کچھ مقامی اسباب و وجوہ کی بنا پر الحاد کا پروپگنڈہ یورپ میں ہوا تھا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ یہی تاریخ دینا میں ہر کہیں دہرائی جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیحیت کا وہ تصور جو یوروپ میں اہل کلیسا نے پیش کیا تھا اور اہلِ علم کے ساتھ جو انسانیت سوز برتاؤ انہوں نے کیا تھا مثلاً علم و سائنس کو دیس نکالا دینا، اہل علم اور سائنسدانوں کو طرح طرح کی سزائیں دینا، اوہام و خرافات،جھوٹ اور  لغو باتوں کو کلامِ الٰہی کہہ کر عوام کو اس پر عمل کی دعوت دینا وغیرہ نے یوروپ میں آزاد خیالوں کے لئے الحاد کا راستہ ہموار کیا تھا، ایسی صورت میں یوروپ کے دانشوروں کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب نہایت صفائی سے کریں، یا تو فطری طور پر ایک خدا پر عقیدہ رکھیں یا سائنس کے علمی و عملی تجربات و مشاہدات پر ایمان لے آئیں۔
یوروپ کے دانشوروں نے فطرت پرستی کے نظریہ میں ایک طرح کی نجات محسوس کی تھی جس کے ذریعہ مذکورہ بالا فریب کے جال سے بچ سکتے تھے۔ اس لئے انہوں نے کلیسا سے صاف صاف کہہ دیا کہ "تم اپنے اس خدا کو لے جاؤ جس کے نام پر تم ہمیں غلام بنائے ہوئے ہو، گران بار ٹیکسوں کے بوجھ تلے ہمیں دبائے ہوئے ہو۔ تمہارے ان خداؤن پر ایمان لانے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم زاہد و درویش ہوجائیں گے، تارک الدنیا راہب ہوجائیں گے اس لئے ہم ایک نئے خدا پر ایمان لارہے ہیں، جس کے اندر معبودِ اول کی اکثر خوبیان موجود ہوں گی لیکن اس کے لئے کوئی گرجا(church) نہ ہوگا جو لوگوں کو غلام بنائے اور نہ ہی اس نئے دین کی طرف لوگوں پر اخلاقی، فکری اور مادی قسم کی کوئی پابندی ہوگی، جیسا کہ تمہارے دین میں ہے۔ بلکہ ہم اس کی وسعتوں میں ہر طرح کی قید سے آزاد ہوں گے۔
مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام میں اس طرح کی کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی ہے جو الحاد کی طرف رہنمائی کرتی ہو۔ اور نہ ہی عقیدہ کو سمجھنے کے سلسلہ میں کوئی مشکل چیز در پیش ہے جو ذہن کو پریشان کرے۔ مثلاً خدا ایک ہے وہی ساری کائنات کا خالق ہے، اور پھر ایک دین اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، وہ خدا اکیلاہے، اس کا کوئی ساجھی و شریک نہیں ہے، اس کے فیصلوں پر کوئی مواخذہ کرنے والا نہیں ہے۔" یہ اتنا واضح اور سادہ مفہوم ہے کہ کوئی بھی شخص حتیٰ کہ نیچری اور ملحد بھی بڑی مشکل سے اس کا انکار تو درکنار اس میں شبہ بھی کرسکتا ہے۔
اسلام میں اس طرح کے مذہبی لوگ نہیں ہیں جیسے یوروپ میں پوپ و پادری ہوتے ہیں، بلکہ یہاں مذہب ساری نوع انسانی کی مشترکہ میراث ہے۔ اپنی فطری، ذہنی اور روحانی صلاحیتوں اور ضرورت کے مطابق ہر شخص اس چشمہ سے سیراب ہو سکتا ہے۔ اسلام میں سب مسلمان برابر ہیں۔ اس میں زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور معیار کارکردگی کی روشنی میں ہر شخص کے درجے متعین ہیں۔ا لبتہ اللہ کی نظروں میں سب سے معزز و محترم وہ لوگ ہیں جو متقی و پرہیز گار ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انجینئر ہے یا مدرس، کوئی فنکار ہے یا کارخانہ کا مزدور، کیوں کہ مذہب صنعتوں اور پیشوں کی طرح کوئی پیشہ نہیں ہے کہ لوگ اپنے پیشوں کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں پیشہ ور پادری نہیں ہوتے ہیں۔ چنانچہ عبادات پنجگانہ وغیرہ کی کاروائیاں پیشہ ور مذہبی شخصیتوں کی مداخلت کے بغیر بحسن و خوبی انجام پذیر ہوتی ہیں۔
البتہ یہ ضروری ہے کہ کچھ علوم فقہیہ اور مسائل شرعیہ کے ماہر ہوں کہ یہی علوم امور عامہ کی بنیاد ہیں تاکہ معاملات کے فیصلوں میں آسانی ہو تاہم ان اسلامی  علوم کے ماہرین اور فقہاء کا مرتبہ دنیا کے دوسرے ملکوں ہی کی طرح ہوگا۔ انہیں اپنے علمی اعزاز کی بنا پر عوام پر فوقیت اور برتری حاصل نہ ہوگی اور نہ ہی درجہ واری اعتبار سے کوئی امتیاز حاصل ہوگا۔ بلکہ ان کی حیثیت صرف ایک قانونی مشیر کی ہوگی (جیسا کہ سلیمان بن عبد الملک کے دورِ حکومت میں عمر بن عبد العزیزؒ خلیفہ مذکور کے مشیر کی حیثیت سے کام کرتے تھے) اور اگر کچھ لوگ ایسے ہوں بھی جو اپنے آپ کو علامہ دہر اور مفتی اعظم کہتے ہوں، تو اپنے منھ میاں مٹھو  بناکریں۔ بہر حال انہیں عوام پر کسی قسم کا کوئی غلبہ حاصل نہ ہوگا۔ صرف قانونی ہی دائرہ تک ان کی سرگرمیاں محدود ہوں گی امور عامہ میں انہیں دخل اندازی کا کچھ بھی اختیار نہ ہوگا۔ مثلاً
"جامعہ ازہر مصر" ایک دینی درسگاہ ہے لیکن اسے قطعی یہ اختیار نہیں کہ اہل علم و فضل کے جلانے یا انہیں آزمائشوں میں مبتلا کئے جانے کا کوئی حکم دے ہاں اسے صرف اتنی گنجائش ہے کہ کسی شخص کے اپنے ذاتی ںظریہ مذہب اور فہم دین پر تنقید کرسکتی ہے یعنی تفہیم و تنقیح میں جامعہ ازہر آزاد ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے علمائے ازہر کے مذہبی خیالات پر تنقید و تبصرہ کرنے میں عام لوگ بھی آزاد ہیں کیوں کہ اسلام کسی ایک شخص یا جماعت کی جاگیر نہیں ہے اس لئے اپنی گزر اوقات کے پیشوں کا لحاظ کئے بغیر وہ سبھی لوگ مذہبیات کے ماہر سمجھے جائیں گے جو مذہب کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔
اس موقع پر ایک بات کی وضاحت کردینا بہت ضروری ہے کہ جب حکومت اسلامیہ کا قیام عمل میں آئے گا تو یہ ضروری نہیں ہوگا کہ علماء ہی گورنر،منسٹر اور شعبوں کے صدر ہوں۔ اگر کوئی تبدیلی ہوگی بھی تو صرف یہ کہ نظام حکومت کی بنیاد شریعت اسلامیہ پر رکھی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون چلے گا، ورنہ بقیہ امور بدستور ہوں گے وہ اس طور پر کہ شعبہ انجینئرنگ کا صدر انجینئر ہوگا، اسپتالوں کے ذمہ دار ڈاکٹر ہوں گے اور معاشی امور کی رہبری ماہرین معاشیات ہی کے ذمہ ہوگی۔ اس طرح تمام شعبہ جات زندگی کے اندر اسلامی روح کار فرما ہوگی۔
تاریخ شاہد ہے کہ نہ تو اسلامی عقائد اور نہ ہی اسلامی حکومت نے اہلِ علم اور سائنسدانوں کے تجربات و مشاہدات کے راستہ میں کبھی بھی کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کی ہے۔ اسلامی عظمت و اقتدار کے دور میں ہمارے کانوں نے ایسی کوئی خبر نہیں سنی کہ تجربہ، کسی نئی تحقیق و جستجو، کسی نئے نظریہ و خیال پر کوئی سائنسداں آگ میں جلایا گیا ہو۔ حقیقی اور سچی سائنس ایک مسلمان کے اس عقیدہ سے متصادم نہیں ہوتی ہے کہ اللہ ہی وہ ہے جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ اسلام تو خود ہی بنی نوع انسان کو دعوت دیتا ہے کہ زمین و آسمان کا مشاہدہ و مطالعہ کریں ، ان کی پیدائش پر غور و فکر کریں تاکہ اس کے ذریعہ خدا کی معرفت حاصل ہوسکے۔ صحیح اور سچی سائنس اور تلاش و جستجو کے راستے یوروپ کے بہت ملحد سائنسدانوں کو خدا  تک رسائی نصیب ہوئی ہے۔
اسلام میں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے جو عوام کو الحاد اور بے دینی کی ترغیب دیتی ہو اور یہ جو معدودے چند ملحد اور منکر مشرق ہی میں پائے جاتے ہیں، وہ اپنے استعمار پسند آقاؤں کی خواہشوں کے اندھے غلام ہیں، ان مذاہب بیزاروں کی خواہش ہے کہ انہیں عقائد و عبادات پر حملہ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے تاکہ وہ لوگوں کو ترک مذہب پر آمادہ کرسکیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آکر وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟
معاملہ درحقیقت یوں ہے کہ مغربی ممالک میں لوگ اپنے ذہنوں کو اوہام و خرافات سے آزاد کرنے اور عوام کو ظلم و تشدد سے نجات دلانے کے نام پر مذہب پر حملہ کرنے لگتے ہیں۔ مگر جب اسلامی شریعت انہیں وہ تمام آزادیاں دے رہی ہے جس کی انہیں ضرورت ہے تو پھر آخر کیوں مذہب پر رکیک حملے کرتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نام نہاد آزاد خیال (Liberals) آزاد خیالی میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لیتے بلکہ اس سے زیادہ تو وہ اخلاقی گرواٹ،بے حیائی پھیلانے اور وحشیانہ جنسے بے راہ روی عام کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں آزاد خیالی کا نعرہ دراصل ایک نقاب ہے جس میں وہ اپنی جنسی اور دیگر پست خواہشات کو ڈھکے ہوتے ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ
براہیمی    نظر     پیدا      مگر     مشکل     سے     ہوتی     ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں
یہ نعرہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ مذہب و اخلاق کے خلاف ان کی بیہودہ جنگ کا جھنڈا ہے۔ وہ لوگ اسلام کے مخالف اس لئے نہیں ہیں کہ اسلام آزاد خیالی کا دشمن ہے بلکہ وہ اس لئے اس کے منکر ہیں کہ اسلام سطحی اور گندی خواہشات کے غلبہ و تسلط سے انسانیت کو نجات دینے کے لئے ان سے نبرد آزما ہے۔
آزاد خیالی کے علمبردار، اسلام پر الزام لگاتے ہیں کہ اسلام کا نظامِ حکومت خود مختارانہ ہے، کیوں کہ یہاں حکومت ایک وسیع اقتدار کی مالک ہوتی ہے اور یہ کتنی بری بات ہے کہ مذہب کے نام پر لامحدود طاقت و اختیارات سے کوئی جماعت فائدہ اٹھائے۔ ظاہر ہے کہ مذہب ایک مقدس چیز ہے۔ لوگوں کے دلوں پر اس کا غلبہ ہے۔ لوگوں کے لئے اس میں بڑی کشش ہے، اس لئے آنکھیں بند کر کے اس نظام حکومت کے ظلم و ستم کو لوگ برداشت کر لیتے ہیں۔ انہیں لوگوں کا خیلا ہے کہ یہ وسیع و لامحدود اختیارات خود مختاری کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ایسی صورت میں عوام ایک غلام کی طرح آزاد خیالی سے محروم ہو جاتے ہیں، ہمیشہ ہمیش کے لئے آزاد خیالی کا گلا گھٹ جاتا ہے۔ پھر کوئی شخص حکمراں طبقے کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا ہے اور اگر کبھی ایسا کوئی کرلیتا ہے تو اس پر خدا اور مذہب کے خلاف بغاوت کا الزام لگتا ہے۔
مذکورہ بالا غلط اور جھوٹے الزامات کی نہایت مدلل اور خوبصور تردید خود قرآن حکیم اور اقوالِ صحابہؓ میں موجود ہے۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ
ترجمہ: وہ لوگ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔(سورہ ۴۲ آیت ۳۸)
ایک دوسری آیت میں وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ  (سورہ ۴ آیت ۵۸)
ترجمہ: اور جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔
خلیفہ اول ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں اگر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرنے لگوں تو تمہارے اوپر میری کوئی اطاعت نہیں ہے ۔ اسی طرح فاروقِ اعظمؓ فرماتے ہیں: اگر میرے اندر تم کوئی کجی دیکھو تو اسے درست کردو، اسی موقعہ پر ایک مسلمان نے کھڑے ہو کر فوراً کہا "بخدا اگر ہمیں ذرا بھی کوئی کجی محسوس ہوئی تو ہم اسے تلوار کی دھار سے درست کردیں گے۔"
یہ صحیح ہے کہ مذہب کے نام پر ایک عرصہ تک دنیا میں ظلم و ستم کی حکمرانی رہی اور یہ بھی سچ ہے کہ اب تک بعض ملکوں میں مذہب ہی کے نام پر ظلم وستم کا دور دورہ ہے۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں۔ کیا ہٹلر نے اسی مذہب کے نام پر حکومت کی تھی؟ یا اسٹالن جس کے بارے میں روسی صحافیوں اور دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ بڑا سخت گیر،ظالم، مطلق العنان تھا، اس نے روس پر ایک پولیس کی طرح حکومت کی ہے اس نے اپنی حکومت و اقتدار کی خاطر مذہب ہی کا نعرہ بلند کیا تھا؟اور کرتہے ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر چراغ پا ہوجاتے ہیں اور مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس لئے اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ بیسویں صدی جس نے مذہب سے نجات پانے کے لئے کیا کیا نہ جتن کئے اور اس کے لئے کیا کیا قربانیاں نہ دیں، مگر اسے وحشیانہ مطلق العنانی کا وہ دور دیکھنا پڑا  جس میں مذہب سے زیادہ پر کشش اور مقدس نام کے سہارے بنی نوع انسان کو زبردست فریب دیا گیا۔
کوئی بھی شخص مطلق العنانی (Dictatorship) کی تعریف نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی آزاد ذہن و دماغ اور بیدار قلب و ضمیر والا انسان اسے تسلیم ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح فطرت و طبیعت کی سلامت روی کا تقاضا تو یہ ہے کہ خواہشات نفسانی کی اتباع کئے بغیر حق خالص کا اقرار کرلیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس دیکھنے میں یہ آیا کہ ہر خوبصورت اور محترم اصول (principle) کو غلط طور پر استعمال کیا گیا ہےا ور اپنے ذاتی اغراض و مفاد کو چھپانے کے لئے اسے بہترین پردہ بنایا گیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب فرانس (French Revolution) کے نشہ کے دوران اسی آزاد خیالی (Liberalism) کے نام پر انتہائی بد ترین اور خبیث قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ تو کیا اس کی روشنی میں ہم جذبۂ استقلال و حریت کو لغو قرار دے دیں؟ اور اسی طرح سینکڑوں بے قصور اور معصوم انسانوں کو دستور کے نام پر قید و بند کی صوعبتیں جھیلنا پڑیں،سزائیں دی گئیں، یہاں تک کہ رسم دار ورسن بھی پوری کی گئی، تو کیا اس وجہ سے ہم دستور کو ایک قلم منسوخ کردیں ، یا کچھ ملکوں میں مذہب کے نام پر اب بھی ظلم وستم کی حکمرانی ہے۔ کیا یہ مناسب بات کوگی کہ اس سے نجات پانے کے لئے ہم مذہب ہی سے محروم ہوجائیں؟ ہاں ہم ایسے مذہب کو ضرور دیس نکالا دیں گے اور اسے ممنوع قرار دیں گے جو اپنے نصاب تعلیم، نظریاتِ زندگی، نیز بذات خود ظلم و تشدد اور ناانصافی کی تبلیغ و اشاعت کرتا ہوگا۔ لیکن کیا یہ مثال اسلام پر بھی صادق آتی ہے؟ جو کہ عدل و انصاف کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اور خاص بات تو یہ ہے کہ اسلام کا عدل و مساوات صرف مسلمانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ نازک سے نازک حالات میں بھی غیر مسلموں،دشمنوں،جنگی حملہ آوروں کے لئے بھی عام ہے۔
آئیے، ذرا سوچیں کہ آخر اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟ تو حالات و مشاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم و ستم،سرکشی و بغاوت سے نپٹنے کے لئے صرف ایک طریقہ ہے، وہ یہ کہ اہل ایمان کا ہر اول دستہ تیار کیا جائے جو اللہ وحدہ لا شریک لہ پر پختہ عقیدہ رکھتا ہو اور اس آزادی کا احترام کرتا ہو جس کی دعوت مذہب نے دی ہے اور جس آزادی کی حفاظت کی ذمہ داری خود مذہب کے اوپر ہے۔ یہ ایمانی ہر اول دستہ ظالم حکمراں کو کبھی بھی نا انصافی کی اجازت نہیں دے گا۔ بلکہ جائز اختیرات کے حدود میں رہ کر انہیں کام کرنے کی ترغیب دے گا۔ میرا خیال ہے کہ عدل و انصاف کا استحکام و قیام نیز جبر و تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلام سے بہتر کبھی بھی کسی نظام حکومت کی تشکیل اس سر زمین پر نہیں ہوئی۔ اسلام نے عوام پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ اگر حکمراں منصف نہ ہوں تو انہیں صحیح راستہ پر لگائیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے  
من رأى منكم منكرا فليغيره (صحیح مسلم)
یعنی تم میں کا کوئی شخص اگر برائی دیکھے تو اسے دور کرے۔ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ
"یعنی عدل انصاف کا ایک کلمہ (بات) جو ظالم بادشاہ کے سامنے کہا گیا ہو وہ جہاد سے بڑھ کر ہے۔(ابو داود و ترمذی)
بہر حال آخر میں ہم اپنے ترقی پسند اور آزاد خیال (progressive & Free Thinker) بھائیوں سے صرف ایک بات کہیں گے وہ یہ کہ آزادئ خیال کا صحیح راستہ اور ذریعہ مذہب بیزاری نہیں ہے بلکہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایسی مضطرب اور انقلاب انگیز روح سے آشنا کرایا جائے جو ظلم سے نفرت کرتی ہو اور ظالم کا مقابلہ کرسکتی ہو دراصل یہی جذبۂ ایمانی اور روح مسلمانی ہے جو بندۂ مؤمن کو مطلوب ہے۔
اے خدا سینۂ مسلم کو عطا ہو وہ گداز
تھا  کبھی  حمزہؓ  و  حیدرؓ  کا  جو  سرمایۂ  ناز
پھر فضا میں تیری تکبیر کی گونجے آواز
پھر تو اس قوم کو دے گرمی روح آغاز
نقش  اسلام  ابھر  آئے  جلی  ہوجائے
ہر مسلمان  حسینؓ   ابن  علیؓ  ہو جائے

(جوشؔ)
مکمل تحریر >>

کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں؟؟؟

اسلام اور آزاد خیالی حصہ ۶

یہ صحیح ہے کہ مذہب کے نام پر ایک عرصہ تک دنیا میں ظلم و ستم کی حکمرانی رہی اور یہ بھی سچ ہے کہ اب تک بعض ملکوں میں مذہب ہی کے نام پر ظلم وستم کا دور دورہ ہے۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں۔ کیا ہٹلر نے اسی مذہب کے نام پر حکومت کی تھی؟ یا اسٹالن جس کے بارے میں روسی صحافیوں اور دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ بڑا سخت گیر،ظالم، مطلق العنان تھا، اس نے روس پر ایک پولیس کی طرح حکومت کی ہے اس نے اپنی حکومت و اقتدار کی خاطر مذہب ہی کا نعرہ بلند کیا تھا؟اور کرتہے ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر چراغ پا ہوجاتے ہیں اور مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس لئے اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ بیسویں صدی جس نے مذہب سے نجات پانے کے لئے کیا کیا نہ جتن کئے اور اس کے لئے کیا کیا قربانیاں نہ دیں، مگر اسے وحشیانہ مطلق العنانی کا وہ دور دیکھنا پڑا  جس میں مذہب سے زیادہ پر کشش اور مقدس نام کے سہارے بنی نوع انسان کو زبردست فریب دیا گیا۔
کوئی بھی شخص مطلق العنانی (Dictatorship) کی تعریف نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی آزاد ذہن و دماغ اور بیدار قلب و ضمیر والا انسان اسے تسلیم ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح فطرت و طبیعت کی سلامت روی کا تقاضا تو یہ ہے کہ خواہشات نفسانی کی اتباع کئے بغیر حق خالص کا اقرار کرلیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس دیکھنے میں یہ آیا کہ ہر خوبصورت اور محترم اصول (principle) کو غلط طور پر استعمال کیا گیا ہےا ور اپنے ذاتی اغراض و مفاد کو چھپانے کے لئے اسے بہترین پردہ بنایا گیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب فرانس (French Revolution) کے نشہ کے دوران اسی آزاد خیالی (Liberalism) کے نام پر انتہائی بد ترین اور خبیث قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ تو کیا اس کی روشنی میں ہم جذبۂ استقلال و حریت کو لغو قرار دے دیں؟ اور اسی طرح سینکڑوں بے قصور اور معصوم انسانوں کو دستور کے نام پر قید و بند کی صوعبتیں جھیلنا پڑیں،سزائیں دی گئیں، یہاں تک کہ رسم دار ورسن بھی پوری کی گئی، تو کیا اس وجہ سے ہم دستور کو ایک قلم منسوخ کردیں ، یا کچھ ملکوں میں مذہب کے نام پر اب بھی ظلم وستم کی حکمرانی ہے۔ کیا یہ مناسب بات کوگی کہ اس سے نجات پانے کے لئے ہم مذہب ہی سے محروم ہوجائیں؟ ہاں ہم ایسے مذہب کو ضرور دیس نکالا دیں گے اور اسے ممنوع قرار دیں گے جو اپنے نصاب تعلیم، نظریاتِ زندگی، نیز بذات خود ظلم و تشدد اور ناانصافی کی تبلیغ و اشاعت کرتا ہوگا۔ لیکن کیا یہ مثال اسلام پر بھی صادق آتی ہے؟ جو کہ عدل و انصاف کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اور خاص بات تو یہ ہے کہ اسلام کا عدل و مساوات صرف مسلمانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ نازک سے نازک حالات میں بھی غیر مسلموں،دشمنوں،جنگی حملہ آوروں کے لئے بھی عام ہے۔
آئیے، ذرا سوچیں کہ آخر اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟ تو حالات و مشاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم و ستم،سرکشی و بغاوت سے نپٹنے کے لئے صرف ایک طریقہ ہے، وہ یہ کہ اہل ایمان کا ہر اول دستہ تیار کیا جائے جو اللہ وحدہ لا شریک لہ پر پختہ عقیدہ رکھتا ہو اور اس آزادی کا احترام کرتا ہو جس کی دعوت مذہب نے دی ہے اور جس آزادی کی حفاظت کی ذمہ داری خود مذہب کے اوپر ہے۔ یہ ایمانی ہر اول دستہ ظالم حکمراں کو کبھی بھی نا انصافی کی اجازت نہیں دے گا۔ بلکہ جائز اختیرات کے حدود میں رہ کر انہیں کام کرنے کی ترغیب دے گا۔ میرا خیال ہے کہ عدل و انصاف کا استحکام و قیام نیز جبر و تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلام سے بہتر کبھی بھی کسی نظام حکومت کی تشکیل اس سر زمین پر نہیں ہوئی۔ اسلام نے عوام پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ اگر حکمراں منصف نہ ہوں تو انہیں صحیح راستہ پر لگائیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے  
من رأى منكم منكرا فليغيره (صحیح مسلم)
یعنی تم میں کا کوئی شخص اگر برائی دیکھے تو اسے دور کرے۔ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ
"یعنی عدل انصاف کا ایک کلمہ (بات) جو ظالم بادشاہ کے سامنے کہا گیا ہو وہ جہاد سے بڑھ کر ہے۔(ابو داود و ترمذی)
بہر حال آخر میں ہم اپنے ترقی پسند اور آزاد خیال (progressive & Free Thinker) بھائیوں سے صرف ایک بات کہیں گے وہ یہ کہ آزادئ خیال کا صحیح راستہ اور ذریعہ مذہب بیزاری نہیں ہے بلکہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایسی مضطرب اور انقلاب انگیز روح سے آشنا کرایا جائے جو ظلم سے نفرت کرتی ہو اور ظالم کا مقابلہ کرسکتی ہو دراصل یہی جذبۂ ایمانی اور روح مسلمانی ہے جو بندۂ مؤمن کو مطلوب ہے۔
اے خدا سینۂ مسلم کو عطا ہو وہ گداز
تھا  کبھی  حمزہؓ  و  حیدرؓ  کا  جو  سرمایۂ  ناز
پھر فضا میں تیری تکبیر کی گونجے آواز
پھر تو اس قوم کو دے گرمی روح آغاز
نقش  اسلام  ابھر  آئے  جلی  ہوجائے
ہر مسلمان  حسینؓ   ابن  علیؓ  ہو جائے

(جوشؔ)
مکمل تحریر >>

پیر، 10 اگست، 2015

اسلام:مرد کی تربیت اور عورت کا پردہ

الحمد للہ اسلام نے دونوں کو پردہ کی تعلیم دی ہے، یہ دہریہ اور ملحدین اسلام سے بغض میں ایسی حرکتیں کرتے ہیں، دیکھو اسلامی تعلیماتَ
مردوں کے لیے احکام:-
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
آیت:  قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ (النور :۳۰)۔
ترجمہ: " آپ مسلمانوں مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ صفائی کی بات ہے۔"(النور :۳۰)۔
مزید احادیث میں نبی کریم ﷺ کے فرامیں ملاحظہ ہوں
احادیث: ۱۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے اتفاق نگاہ کے متعلق سوال کیا، تو فرمایا: "نگاہ پھیر لو"(مسند احمد،مسلم،ابو داود،ترمذی)۔
حدیث۲:۔آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: "اے علی! ایک نگاہ کے بعد دوسری نگاہ نہ ڈالو۔۔۔۔"(مسند احمد،ابو داود،ترمذی)۔
حدیث۳ :۔ حجۃ الوداع میں ایک عورت آپ ﷺ سے مسئلہ پوچھنے آئی تو حضرت فضلؓ اس کی طرف دیکھنے لگے، تو آپﷺ نے ان کی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ دوسری  طرف پھیر دیا ۔۔۔۔۔(بخاری)
عورتوں کے لئے احکام:-

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
آیت:  وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ (النور :۳۱)۔
ترجمہ: اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔۔۔"(سورہ النور:۳۱)۔
حدیث: ایک مرتبہ حضرت ابن ام مکتومؓ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے حضرت ام  سلمہؓ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کو ان سے پردہ کا حکم دیا، اس پر حضرت ام سلمہؓ نے عرض کیا وہ تو نابینا ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:"کیا تم دونوں بھی نابینا ہو، تم انہیں نہیں دیکھ رہی ہو؟"(ابو داود،نسائی،ترمذی،ابن حبان)۔


الحمد للہ اسلام کامل اور مکمل دین ہے، اس پر عمل کر لیں گے عورت کی عزت کی حفاظت بھی ہوجائے گی اور مرد کی تربیت بھی۔ اور ماحول بالکل باحیا ہوجائے گا۔
مکمل تحریر >>

جمعہ، 31 جولائی، 2015

RSS کے سوالات کے جوابات 1


جواب حاضر ہے !
از  مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
            آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر یکم مارچ ۲۰۱۵ء کے شمارہ میں آر ایس ایس کی جانب سے مسلمانوں کے نام دس سوالات پیش کئے گئے ہیں ، یہ دراصل ان چھ سوالات کے مقابلہ میں ہیں ، جو سنی علماء کونسل نے سنگھ پریوار کے سامنے پیش کئے تھے ، آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت خود تو مسلمانوں سے ملاقات کا حوصلہ نہ کرسکے ؛ لیکن سنگھ کی ایماء پر راشٹریہ مسلم منچ کے صدر اندریش کمار ( جن کا شمار سنگھ کے اہم ذمہ داروں میں ہوتا ہے ) نے سنی علماء کونسل کے وفد سے ملاقات کی ، کونسل کی طرف سے چھ سوالات کئے گئے ، ان میں پہلا سوال یہ تھا کہ کیا سنگھ بھارت کو ایک ہندو ملک مانتا ہے ؟ دوسرا سوال تھا کہ کیا سنگھ نے بھارت کو ہندو راشٹر میں بدلنے کے لئے کوئی خاکہ تیار کیا ہے ؟ تیسرا سوال : کیا یہ ہندو راشٹر ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے مطابق ہوگا یا سنگھ نے کوئی نیا فلسفہ تیار کیا ہے ؟ چوتھا سوال یہ کہ تبدیلی ٔمذہب پر وہ کیا چاہتے ہیں ؟ پانچواں سوال کہ سنگھ مسلمانوں سے کس طرح کا راشٹریہ پریم چاہتا ہے ؟ اور چھٹا سوال کہ سنگھ اسلام کو کیسے دیکھتا ہے ؟
            اندریش کمار جی ان سوالات کا جواب دینے کے موقف میں نہیں تھے ، اس لئے انھوں نے جواب دینے سے انکار کردیا ؛ البتہ انھوں نے ٹالنے کے لئے یہ بات کہی کہ مسلمانوں کا ایک اجلاس بلایا جانا چاہئے ، وہ وہاں عوامی طورپر جواب دیں گے ۔
            ان سوالات کے رد عمل کے طورپر سنگھ کے ایک نمائندہ ڈاکٹر پرمود پاٹھک جو ویدک اسکالر ہیں اور گوا کے رہنے والے ہیں ، نے دس سوالات مسلم تنظیموں اور علماء سے کئے ہیں ، بعض سوالات مذہبی نوعیت کے ہیں اور بعض سیاسی ، سیاسی اُمور سے متعلق سوالات کا جواب اصل میں ان لوگوں کو دینے کا حق ہے جو اس میدان میں سرگرم ہیں ؛ لیکن کوشش کی جائے گی کہ مذہب سے متعلق سوالات کے ساتھ ساتھ کچھ تبصرہ ان سیاسی سوالات پر بھی ہوجائے ۔
کیا ہندو کافر ہیں ؟
            ان کا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا آپ ہندو یا کسی غیر ہندو کو کافر تسلیم کرتے ہیں ؛ کیوںکہ جیساکہ کہا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا کافروں کا صفایا کردیا جائے گا ؟
            اسلام کی بنیاد عقیدۂ توحید پر ہے ، عقیدۂ توحید سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی ایک ہے ، دو یا اس سے زیادہ خدا نہیں ، اللہ کا کوئی کنبہ یا خاندان نہیں ، نہ اس کی بیوی ہے ، نہ اس کے ماں باپ ہیں اور نہ اس کی اولاد ، وہ اپنی صفات و اختیارات میں بھی یکتا ہے ، عبادت صرف اسی کی کی جاسکتی ہے ، جو لوگ ان باتوں کا اقرار کرلیں ، ان کو ’’ مسلم ‘‘ کہتے ہیں ، مسلم کے معنی ہیں خدا کو ایک ماننے والا ، ایک خدا کے سامنے سر جھکادینے والا ، جو لوگ خدا کو ایک تسلیم نہیں کرتے ، خدا کا انکار کرتے ہیں یا کئی خدا مانتے ہیں ، ان کے لئے کوئی اصطلاح ہونی چاہئے ، اسی اصطلاح کے طورپر کافر کا لفظ استعمال کیا گیا ، کافر کے معنی ہیں : عقیدۂ توحید کا انکار کرنے والا ، یا دوسرے لفظوں میں خدا کو ایک نہ ماننے والا ، اس اعتبار سے جو لوگ اسلام قبول نہیں کرتے وہ کافر کہلاتے ہیں ؛ کیوںکہ کافر کے معنی انکار کرنے والے کے ہیں ، جو لوگ آخرت کا انکار کرتے تھے ان کے لئے قرآن مجید نے کہا ہے : ’’ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کَافِرُوْنَ‘‘ (یوسف : ۳۷) اسی طرح جو لوگ توحید کا اور انبیاء کے ذریعہ آنے والے دین کا انکار کیا کرتے تھے ، وہ خود اپنے بارے میں کہتے تھے ، ہم اس کے کافر یعنی منکر ہیں : ’’ اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ کَافِرُوْنَ‘‘ ( زخرف : ۲۴) بعض ہندو بھائیوں کے ذہن میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ کافر کا لفظ اہانت آمیز ہے ، یہ درست نہیں ہے ، یہ تو صرف اظہار واقعہ ہے کہ فلاں شخص دین اسلام کا قائل نہیں ، اگر کافر کا لفظ اہانت آمیز ہوتا تو قرآن مجید میں بار بار اہل مکہ کو ’’ کافرون ‘‘ کے لفظ سے مخاطب کیا گیا ، انھیں یہ بات ناگوار گذرتی اور وہ اس پر اعتراض کرتے ؛ لیکن ان کی طرف سے ایسا کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا ، اس کے باوجود فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کسی غیر مسلم کو کافر کے لفظ سے مخاطب کرنا گراں گذرتا ہے تو انھیں کافر سے مخاطب نہ کیا جائے ، اگر کوئی مسلمان ایسا کرے تو گنہگار ہوگا : ’’ ولو قال لذمی : یا کافر ! یأثم إن شق علیہ‘‘ ( الاشباہ والنظائر : ۲؍ ۲۵۷) اگر کسی نے کسی ذمی کو ’’ اے کافر ! ‘‘ کہہ کر پکارا ، جو اس پر گراں گذرتا ہو تو اے کافر کہنے والا شخص گناہ گار ہوگا ۔
            رہ گئی یہ بات کہ ایک وقت آئے گا جب کافروں کا صفایا کردیا جائے گا ، یعنی مسلمان تمام کافروں کو تہہ تیغ کردیں گے ، یہ بات نہ قرآن میں آئی ہے اور نہ حدیث میں اور نہ کبھی مسلمانوں نے ایسا دعویٰ کیا ، مسلمان اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ جنگ اور دباؤ کے ذریعہ پوری دنیا کو مسلمان کردیا جائے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ‘‘ ( البقرۃ : ۲۵۶) یعنی انسان کو خود سمجھنا چاہئے کہ ہدایت کا راستہ کونسا ہے اور کونسا راستہ گمراہی کی طرف لے جاتا ہے ؟ ایسا نہیں ہے کہ اسلام کی اشاعت میں جبر و اکراہ سے کام لیا جائے ، اگر مسلمانوں نے بہ زور تلوار دین کو پھیلانے کی کوشش کی ہوتی اور جو اسلام قبول نہ کرے ، اس کوتہہ تیغ کردیتے تو آج مسلمان ہندوستان میں ایک چھوٹی سی اقلیت میں نہ ہوتے اور کیا برہمنوں ، پنڈتوں ، جاٹوں اور راجپوتوں ، نیز مراٹھوں جیسی طاقتور ، بہادر ، حوصلہ مند اور جنگ جو قوموں کے بارے میں یہ بات سوچی جاسکتی ہے کہ انھوںنے کسی طاقت سے دب کر اسلام قبول کرلیا ہوگا ؟ --- حدیث میں البتہ یہ بات آئی ہے کہ قیامت کے قریب آسمان کی طرف سے ایک مرد ِغیب کی آمد ہوگی جس کا انتظار مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں اور عیسائیوں کو بھی ہے ، ان کے ذریعہ پوری دنیا میں دین حق پھیل جائے گا اور سارے لوگ مسلمان ہوجائیں گے ، پاٹھک جی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہئے کہ کافروں کا صفایا قتل و خون اور مار کاٹ کے ذریعہ ہوگا ؛ بلکہ یہ دعوتِ اسلام کے ذریعہ ہوگا اور لوگ اپنی مرضی سے اسلامی تعلیمات سے متأثر ہوکر ایمان لے آئیں گے ، اس عقیدہ میں غیر مسلم بھائیوں سے کسی نفرت کا بالکل اظہار نہیں ہے ۔
اللہ کی طرف لے جانے والے
            دوسرا سوال یہ کہ کیا گیا ہے کہ چوںکہ آپ اسلام کو اللہ کی طرف لے جانے والا مانتے ہیں تو کیا دوسرے مذہب ہندو ، جین ، بودھ ، سکھ اور دوسرے مذاہب کیا اسی راستے پر گامزن ہیں اور اسی طرف لے جانے والے ہیں ؟
            اس سلسلہ میں یہ عرض ہے کہ ظاہر ہے اللہ کی طرف لے جانے والا راستہ وہی ہوگا ، جو خود اللہ کا بتایا ہوا راستہ ہو ، اللہ نے اپنا راستہ بتانے کے لئے ہر زمانہ میں اپنے پیغمبر بھیجے ، انسان کی کمزوری یہ ہے کہ اس کو ہر چیز میں ملاوٹ کی عادت ہے ، اب دیکھئے کہ دودھ ، گھی اور شہد سے لے کر پھل اور اناج تک کوئی چیز ایسی نہیں ، جس میں انسان اپنی یہ کارستانی نہ دکھاتا ہو ، بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات عرض کرنی پڑتی ہے کہ ہمارے سنگھ پریوار کے دوستوں نے پوری توجہ مذہبی منافرت کو بڑھانے پر مبذول کر رکھی ہے ، اگر وہ اس کے بجائے ویدک دھرم کی حقیقت کو جانتے اور ان کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے تو واقعی وہ قوم کے سب سے بڑے محسن اور حقیقی سیوک ہوتے ، دنیا میں جب بھی خدا کی طرف سے دین بھیجا گیا تو اس کی بنیاد اللہ کو ایک ماننے ، اللہ ہی کی عبادت کرنے اور اللہ ہی کے احکام پر عمل کرنے کی تعلیمات پر تھی ، لوگوں نے ملاوٹیں پیدا کرکے اصل دین کو متأثر کردیا ۔
            آج کل ہندو مذہبی کتابوں میں توحید کی بات اتنی وضاحت سے کہی گئی ہے کہ اگر بصیرت کی آنکھ موجود ہو تو اندھا بھی اسے دیکھ لے ، قرآن مجید کہتا ہے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ، ( الفاتحہ : ۱ ) … وید کا بیان ہے : اس دنیا کے بنانے والے کے لئے تعریف ہے ، ( ۵ : ۱۸ : ۱ ) قرآن کہتا ہے کہ اللہ کی ذات رحمن و رحیم ہے ، (الفاتحہ : ۲ ) وید کا بیان ہے کہ وہ دینے والا اور مہر بان ہے ، (رگ وید : ۳ : ۳۴ : ۱ ) قرآن نے کہا ہے کہ ہر چیز کو اللہ ہی نے پیدا کیا ، ( الفرقان : ۲ ) وید کا بیان ہے : پرما تما سب پرجا کو بناتا ہے ، ( اتھر وید : ۱۹ : ۱ ) قرآن کہتا ہے کہ اللہ ہی کے لئے آسمان اور زمین کی حکومت ہے ، ( البقرۃ : ۱۰۷ ) وید کا بیان ہے : وہی عظیم زمین و آسمان کا مالک ہے ، ( رگ وید : ۱۰۱ ) ، قرآن کہتا ہے کہ مشرق و مغرب کا اللہ ایک ہی ہے ، ( البقرۃ : ۱۱۵ ) وید کا بیان ہے کہ سب سمتیں اسی کی ہیں ( رگ وید ، ۱۰ : ۱۲۱ : ۴ ) قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے مانند و مماثل کوئی چیز نہیں ’’ لیس کمثلہ شیٔ‘‘ ( الشوریٰ : ۱۱ ) وید کا بیان ہے : اس پر میشور کی کوئی مورتی نہیں بن سکتی ( یجر وید ، ۳۲ : ۳ ) قرآن کہتا ہے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے ، خواہ تم کہیں بھی ہو ، اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو ، وہ اسے دیکھ رہا ہے ، ( الحدید : ۴ ) وید کا بیان ہے : جو کھڑا ہوتا ہے ، جو چلتا ہے ، جو دھوکہ دیتا ہے ، جو چھپتا پھرتا ہے ، جو دوسروں کو تکلیف دیتا ہے ، جو دو آدمی خفیہ بات کرتے ہیں ، تیرا ایشور ان سب کو جانتا ہے ، ( اتھر وید : ۴ : ۱۶ : ۲ ) قرآن کہتا ہے : اللہ ہی خالق اور حاکم ہے ، اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ، بڑی خوبیوں والا ہے ، تم لوگ اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور پست آواز میں دعاء کرو ( الاعراف : ۵۵ ، ۵۴ ) وید کا بیان ہے : قابل پرستش زمین اور آسمان کو سچے راستہ پر چلانے والے پر میشور سے عاجزی سے ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگو ( رگ وید : ۶ : ۱۶ : ۴۶ ) … کہاں تک مثالیں پیش کی جائیں ، اللہ تعالیٰ کی توحید اور صفات کے بیان میں قرآن مجید اور ویدوں میں اس قدر یکسانیت ہے کہ حیرت ہوتی ہے ، اگر ہندوتوا تنظیمیں لوگوں کو لاٹھی اور بندوق سکھانے کے بجائے وید کا نغمۂ توحید سنائیںاور ویدک دھرم کا اصل نظریۂ توحید ان کے سامنے پیش کریں تو کتنی بھلی بات ہوگی ، اس طرح انسان کا رشتہ خداسے مضبوط ہوتا ، اور خدا کی توحید کا تصور انسانی وحدت کا ماحول پیدا کرنے اور طبقاتی تفریق سے انھیں بچانے میں ممد و معاون ہوتا ، کلمۂ طیبہ کے پہلے جزء کا خلاصہ یہی عقیدہ توحید ہے ، اب ہندو بھائی سوچیں کہ مورتی پوجا کر کے وہ اپنی مذہبی کتابوں کے احکام کی تعمیل کر رہے ہیں ، یا اس کی مخالفت اور عدول حکمی ؟
            اسلام مسلمانوں کی میراث نہیں ہے یہ تو پوری انسانیت کی امانت ہے ، جن لوگوں نے اپنی امانتوں کو کھو دیا ہے ، ان کے لئے ہم نے ان کی متاع گم گشتہ کی حفاظت کی ہے ، وہ آئیں اور اپنے خدا کی دی ہوئی امانت شوق کے ہاتھوں قبول کرلیں ، ہندو مذہب ہو یا جین یا بودھ یا سکھ ، ہر مذہب کی بنیادی تعلیم توحید ، رسالت اور آخرت ہے ، جو لوگ ان حقیقتوں کو تسلیم کرلیں گے ، وہ سب اللہ کے راستہ پر آجائیں گے ۔
            البتہ اس حقیقت کے اظہار میں کوئی تکلیف نہیں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے اپنے مذہب کی حقیقی تعلیمات کی حفاظت نہیں کی ، یہاں تک کہ گرونانک جی جن پر زیادہ عرصہ نہیں گذرا انھوںنے صراحتاً گرو گرنتھ میں عقیدۂ توحید کا ، قرآن مجید کی حقانیت کا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ذکر فرمایا ہے ؛ لیکن اس کے باوجود سکھ بھائی بھی عملاً شرک میں مبتلا ہوگئے ۔
            اس لئے ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا کی طرف لے جانے والا سیدھا اور درست راستہ اسلام ہے ، جس کی ابتدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہوئی ؛ بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور ہر زمانہ میں مختلف پیغمبروں کے ذریعہ جس کو ویدوں میں دُوت ( سفیر ) سے تعبیر کیا گیا ہے آتے رہے ، یہی سارے انسانیت کا اصل مذہب ہے ، وہ اپنی آخری شکل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسانیت تک پہنچا اور جس طرح پہنچا اسی طرح محفوظ ہے ، اس لئے خدا تک پہنچنے کا یہی ایک راستہ ہے ، ہندو بھائی اور دوسرے اہل مذاہب اپنے اصل مذہب پر آجائیں جو قرآنی تعلیمات کو شامل ہے تو وہ بھی خدا کے راستے پر ہوں گے اور اگر انھوںنے اس کو قبول نہیں کیا تویہ چیز انھیں اللہ کی طرف لے جانے کی بجائے اللہ کے راستے سے ہٹادینے والی ہوگی ۔
            یہ کوئی تنگ نظری نہیں ہے ؛ بلکہ ہر مذہب وہ خدا اور آخرت کے بارے میں جو تصور پیش کرتا ہے ، اسی کو حق اور مدار نجات قرار دیتا ہے ، ہندو مذہب میں بھی جو لوگ اس مذہب کو قبول نہ کریں ، وہ ان کے عقیدہ کے مطابق خدا کے راستہ سے ہٹے ہوئے ہیں اور ان کو نرک میں جانا ہوگا ، یعنی اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خدا کے راستہ سے ہٹے ہوئے لوگوں میں اس کا شمار ہوگا ، ہندو مذہب کی موجودہ شکل کے اعتبار سے تو بعض لوگ ذات پات کی بنیاد پر بھی دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ؛ چنانچہ منوسمرتی میں ہے : ’’ جو کوئی شودر کو دھرم کی تعلیم دے گا اور جو اسے مذہبی مراسم ادا کرنا سکھائے گا وہ اس شودر کے ساتھ ہی اسم ورت نامی جہنم میں جائے گا ‘‘ ۔ ( منو سمرتی : ۴ : ۸۱)
            لیکن بہر حال اس کا تعلق آخرت سے ہے نہ کہ دنیا سے ، آخرت میں ثواب و عذاب دینے کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے نہ یہ کہ کوئی قوم دوسری قوم کو عذاب دے گی ؛ لیکن اس دنیا میں ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ تشدد یا اہانت کا رویہ اختیار کرے ، اسلام نے اس سے منع کیا ہے ۔ ( جاری)

(شمع فروزاں روزنامہ منصف 31 جولائی 2015)
مکمل تحریر >>

ہفتہ، 25 جولائی، 2015

حج کے متعلق اشکالات کے جوابات

حج کے متعلق اشکالات و جوابات
پنڈت جی کے اعتراضات کے دندان شکن جوابات
اعتراض: طواف کرنے پر
 سوال:آپ لوگ ہم پہ کیوں اشکال کرتے ہیں کہ تم لوگ لال لال کپڑے پہن کر گنگا ندی پوجا کرنے جاتے ہوں حالاں کہ آپ لوگ بھی ایسا یہ معاملہ کرتے ہں کہ جب حج کرنے جاتے ہیں تو احرام باندھتے ہیں پھر پتھر کا چکر لگاتے ہیں لہٰذا یہ بھی ایک شرک ہے اگر شرک ہے تو حج و طواف کرنے کی کیا وجہ ہے؟
جواب: دراصل حق جل مجدہ نے انسان کو پیدا کیا تاکہ میری عبادت کرے اور عبادت کی دو قسم ہیں۔
(۱)انکسار و تذلل
(۲) محبت و ایثار۔
انکسار و تذلل کے لیے نماز کا حکم ہے جو جسمانی رنگ میں انسان کے ہر عضو کو خشوع و خضوع کی حالت میں ڈالتی ہے حتی کہ بندہ پورے جسم و جثہ کے ساتھ سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔
        دوسری قسم ہے محبت و ایثار یعنی بندہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تڑپتا ہے اس وقت ان کی ضرورت ہوتی ہے کہ کس طرح اپنا شوق پورا کریں تو سوائے حج و طواف کے اور کوئی ایسی چیز نہیں مل سکتی جس سے انسان اپنی محبت کا اظہار کرے۔
اعتراض: احرام میں مرد و عورت بغیر سلے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں۔
سوال: آپ ہمیں کیوں کہتے ہیں کہ تم لوگ صبح سویرے صرف شرمگاہ چھپاتے ہو اور غسل کرنے کے بعد ستر کو صحیح طریقے سے چھپاتے بھی نہیں اور عبادت کے لئے مندروں میں داخل ہوجاتے ہو۔ حالاں کہ یہ طریقہ آپ کے مذہب میں بھی رائج ہے بلکہ آپ کے مذہب میں یہ کارنامہ سب سے زائد ہیں کہ مرد و عورت کو حالتِ احرام میں فقط بے سلی ہوئی دو چادروں پر اکتفا کر کے حج ادا کرتے ہیں اور یہی بے سلے کپڑے پہن کر دوڑتے بھی ہیں۔
جواب: آپ کو یا تو مسائل احرام کا علم ہی نہیں، نہ آپ نے مطالعہ کرنے کی زحمت فرمائی حالتِ احرام اور غیر احرام میں کپڑے ایک ہی ہوتے ہیں عورتوں کے کپڑے یکساں ہوتے ہیں اس میں کوئی تفاوت نہیں ہوتا رہی بات مردوں کی تو وہ کپڑے بغیر سلے تو پہنتے ہیں لیکن ستر نہیں کھولتا کیوں کہ ان کے پاس دو دو چادریں پانچ پانچ میٹر کی ہوتی ہیں ایک چادر ناف سے لے کر ساق(پنڈلی) تک ہوتی ہے دوسری چادر بدن پر رکھی جاتی ہے جس سے ستر کھولنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ستر علی حالہ مستور رہتا ہے، مکشوف نہیں ہوتا(ستر چھپا ہوا ہی ہوتا ہے کھلتا نہیں ہے۔)
سوال: اہل ایمان خود شرک و بت پرستی میں مشغول ہیں جیسا کہ دوران حج حجرِ اسود کو پوجتے ہیں اور پتہ نہیں کہ ان کی عورتیں ان پتھر سے کیا طلب کرتی ہیں؟
جواب: ارے نادان پنڈت؟(نعوذ باللہ) تیری عقل کس نے سلب کرلی کیا تمہیں معلوم نہیں کہ معبود کسے کہتے ہیں معبود اسے کہتے ہیں کہ جس کی عبادت کی جائے اور اس کی حمد و ستائش بھی کی جائے اور ہم اہل ایمان آج تک اس حجر اسود کی کبھی بھی ستائش نہیں کی ہے اور نہ معبود ہونے کی نیت سے اس کو پوجا ہے بلکہ ایک نسبت و محبت میں اس کو بوسہ دیتے ہیں۔ اس کی مثال یوں لیجئے کہ جب آپ گھر جاتے ہیں تو بیوی کو بوسہ دیتے ہیں وغیرہ ذلک۔ تو کیا یہ آپ کی معبودہ ہوگئی؟ لہٰذا جس طرح آپ محبت میں بوسہ دیتے ہیں اور معبود نہیں ہوتی ہیں اسی طرح ہم ان کی محبت و عشق میں بوسہ دیتے ہیں نہ کہ عبادت کرتے ہیں۔
مزید حجر اسود کو بوسہ دینے کا راز مدلل  یہاں موجود ہے
اعتراض صفا و مروہ کے درمیان سعی  پر۔
سوال: اسی طرح آپ ہم لوگوں کو بدنام کرتے ہیں کہ تم کندھے پر ڈنڈے اٹھا کر ہر بڑے مندروں میں جاتے ہو اور شرک کرتے ہو حالانکہ آپ خود ایسا عمل کرتے ہیں کہ دوران حج صفا مروہ کا بار بار چکر لگاتےہیں اور ہم تو فقط ایک ہی مرتبہ مندروں اور گنگاؤں میں داخل ہوتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ آپ سب سے زیادہ شرک کرتے ہیں۔
جواب: صفا و مروہ کے درمیان جو کہ خانہ کعبہ کا چوک ہے ہم اس لیے سعی کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت کی بارش ہو اور اس میں یہ بھی راز ہے کہ مثلاً کوئی بادشہ کے پاس داخل ہو اور پھر باہر نکلے اور نہ جانتا ہو کہ بادشاہ میرے بارے میں کیا حکم کرے گا، منظوری فرمائے گا یا نہیں تو بادشہ کے دروازے پر بار بار آتا جاتا ہے ،اس امید سے کہ اگر اوّل دفعہ رحم نہ کرے گا تو دوسری بار میں رحم کرے گا۔
        بخلاف تمہارا خدا مورتی ہے کہ نہ تو سنتا ہے اور نہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے اور نہ نفع و نقصان کا مالک ہے حتی کہ اگر اس کے بدن پر کتے پیشاب کرے تو بھگا بھی نہیں سکتا تو ایسوں کے پاس چکر لگانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اعتراض :حج میں حلق کروانے پر
سوال: جناب ہم کسی اہم پوجا پاٹ کے موقع پر اگر سر منڈاتے ہیں تو آپ ہنستے اور مذاق اڑاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ دیکھو کافر کو؟ حالاں کہ یہ عمل آپ بھی کرتے ہیں اور دوران حج میں حلق کراتے ہیں اس سے یہ معلوم ہوا کہ آپ بھی کفر و شرک میں مبتلا ہیں۔
جواب: جناب ہم لوگ سر عبادت کے مقصد سے منڈواتے نہیں ہیں(البتہ اس پر اللہ اجر دیتا ہے) بلکہ بہت دنوں سے سر ننگا رہا ہے ہوسکتا ہے کہ بالوں کے نیچے ضرر دینے والی کنکریاں موجود ہوں جو آگے چل کر نقصان دے۔ دوسرا جواب ہمارے یہاں سر منڈوانا ضروری نہیں بلکہ بالوں کو چھوٹا کر لیا تو کافی ہے بخلاف تمہارے یہاں کہ سر جڑ سے منڈوانا ضروری ہے۔
اعتراض رمی جمار پر
سوال: تم یہ کہتے ہو کہ دودھ مٹی پھول مورتیوں پر چڑھا کر کفر و شرک میں مبتلا ہو حالاں کہ تم بھی اسی عمل کا ارتکاب کرنے والے ہو اور دوران حج رمی جمار کرتے ہو ہم تو صرف پھول،دودھ ہی چڑھاتے ہیں اور تم تو پتھر کو پوجتے بھی ہو اور پتھر چلاتے بھی۔
جواب: ارے پنڈت! تم پھول ، دودھ اور کیا کیا لے جاتے ہو تاکہ شیاطین کی پوجا کریں اور  منائیں لیکن ہم شیطان کے سر و جسم توڑنے کے لئے پتھر مارتے ہیں چڑھاتے نہیں گویا تم محبتاً و اعتقاداً یہ عمل کرتے ہو اور ہم ضرباً بغضاً و اعداءً یہ عمل کرتے ہیں۔ اب جناب پنڈت جی بات ذہن نشین ہوگئی کہ اور کوئی خلجان ہے ان شاء اللہ دندان شکن جوابات دئے جائیں گے۔
اعتراض:حرم میں جانوروں کے شکار نہیں کرنے پر
سوال: آپ کا مذہب کیسا ہے کہ کبھی تو جانوروں کا شکار کرنا حلال ہوتا ہے اور کبھی حرام ہوتا ہے مثلاً حرم کے بعض جانوروں کا شکار نہیں کرتے ہیں آخر  اس کی وجہ کیاہے؟
جواب: ہم لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت ہے چنانچہ ان کی محبت میں ان کے یہاں کے جانوروں سے بھی محبت کرتے ہیں یعنی ہم اپنے محبوب کے کوچہ کے جانوروں کو باوجود یہ کہ گوشت کھانا جائز ہے  لیکن کچھ نہیں کرتے اور ان کی محبت میں چھوڑ دیتے ہیں۔
سوال: جب ان کی محبت میں ماکول اللحم جانور کو چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے تو اسی طرح چیل،کوے،بچھو، سانپ،چوہے،بھیڑیے،سگ دیوانہ، کو کیوں قتل کرتے ہیں اس کو بھی چھوڑ دو کیوں کہ وہ تمھارے محبوب کے کوچے کے باشندے ہیں۔

جواب: یہ جانور ضرر دینے والا اور عاشقانِ الٰہی  کو تکلیف پہنچانے والے اور کوچۂ محبوب سے روکنے والے ہوتے ہیں لہٰذا محبوب حقیقی خداوند تعالیٰ کی نظر میں اسی وجہ سے مردود ٹھہرے کہ اس کے عاشقوں کے لیے اس کے کوچہ سے مانع ہوتے ہیں اور یہ امر اس کو ناپسند ہے پس جو امر  محبوب کی نظر میں مبغوض ہو بالضرور اس کے عاشقوں اور محبوب کی نظر میں بھی وہ مبغوض ہوگا یہی وجہ ہے کہ اگر ان جانوروں کو حرم میں مار ڈالے تو اس پر کوئی تاوان ان کے بدلے میں دینا لازم نہیں ہوتا بلکہ کارِ ثواب رضائے محبوب ہے۔
مکمل تحریر >>