Pages

اتوار، 9 نومبر، 2014

کیا علماء ترقی سے روکتے ہیں؟

کیا علماء ترقی سے روکتے ہیں؟
جواب ۱: لوگ علماء کو ترقی سے مانع کہتے ہیں آج میں اس الزام کو دفع کرنا چاہتا ہوں اور اس وقت  میں ترقی کی ضرورت پر بیان کروں گا۔ اس پر جینٹل مین(gentle men) چونکے کہ یہ ملّا آدمی اور ترقی کا بیان۔ میں نے کہا آپ تو ترقی کو صرف عقلی ضروری کہتے ہیں اور میں اسے شرعی فرض کہتا ہوں، اس پر اور بھی حیرت ہوئی، میں نے کہا حق تعالیٰ فرماتے ہیں  " وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ"
یعنی ہر قوم کے لئے ایک جہت قبلہ مقرر ہے جس کی طرف وہ منھ کرتی ہے، پس ایک دوسرے پر سبقت کرو۔
اس آیت میں حق تعالیٰ نے ہم کو استبقاق کا حکم دیا جس کے معنی ایک دوسرے پر سبقت کرنے کے ہیں اور یہی حاصل ہے ترقی کا تو ترقی کی ضرورت قرآن سے ثابت ہے۔ بلکہ "استبقوا"  صیغہ امر ہے جس کا مقتضی وجوب ہےتو یوں کہنا چاہئے کہ قرآن میں ترقی کو واجب و فرض کیا گیا ہے تو اب جو لوگ علماء کو ترقی سے مانع (روکنے والا) کہتے ہیں وہ ان پر کتنا بڑا افترا کرتے ہیں۔ بھلا جس چیز کا قرآن میں حکم ہے ، علماء کی کیا مجال ہے کہ اس سے منع کر سکیں ، پس ترقی کا ضروری ہونا تو متفق علیہ ہے البتہ اس کے طریقہ میں اختلاف ہے ۔ جینٹل مین(gentle men) کہتے ہیں کہ جس طرح ہم کہیں اسی طرح ترقی کرو اور علماء کہتے ہیں کہ جس طرح قرآن کہے اسی طرح ترقی کرو۔ سو قرآن میں "فاستبقوا" کے ساتھ "الخیرات" کی بھی قید ہے جس کا حاصل یہ ہوا کہ نیک کاموں میں ترقی کے آپ خواہاں ہیں وہ  ترقی فی الخیر ہے تو میں اس کا ذمہ لیتا ہوں کہ علماء آپ کو اس ترقی سے منع نہیں کریں اور اگر ترقی فی الشر ہے تو اس کا مطلوب نہ ہونا بلکہ مذموم نہ ہونا تمام عقلاء کے نزدیک مسلم ہے ورنہ پھر ایک ڈاکو کو بھی یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ مجھے ڈاکہ سے کیوں منع کیا جاتا ہے میں تو ترقی کا طالب ہوں۔ بتالیئے اسے کیا جواب دیں گے ظاہر ہے کہ اس سے یہی کہا جائے گا کہ تیری یہ ترقی ترقیِ محمود نہیں بلکہ ترقیِ مذموم ہے جہ کہ برے طریقے سے حاصل کی جاتی ہے۔
        معلوم ہوا کہ ترقی مطلقاً مطلوب نہیں بلکہ وہی مطلوب ہے جہ محمود ہو مذموم نہ ہو۔ پس اب یا تو آپ ثابت کردیں کہ جس ترقی کے آپ طالب ہیں وہ محمود ہے مذموم نہیں یا ہم ثابت کردیں کہ ترقی محمود یہ ہے جس کی ہم تعلیم دے رہے ہیں اور یہ ترقی مذموم ہے جس کی تعلیم آپ دے رہے ہیں۔ اس تقریر سے بہت جلد سمجھ گئے اور اقرار کر لیا کہ واقعی علماء کو ترقی سے اختلاف نہیں۔ بلکہ اس کے طریقِ تحصیل سے اختلاف ہے کیوں کہ ان طرق(راستوں) نے خلاف شرع ہونے کی وجہ سے اس ترقی کو فی الشر کا مصداق بنادیا ہے۔ غرض دوسری قوموں کی ترقی کو دیکھ کر مسلمانوں کے منہ میں پانی بھر آتا ہے اور وہ اس کی ہر حالت کو ترقی میں داخل سمجھ کر اختیار کرتے جاتے ہیں کبھی ان کی صورت و وضع کو اختیار کرتے ہیں کہ شاید اس کو ترقی میں دخل ہو کبھی عورتوں کے پردہ کو اٹھانا چاہتے ہیں کہ یہی ترقی سے مانع ہے۔ اگر عورتیں آزاد ہوں گی تو علوم صنعت و حرفت سیکھ کر خود بھی ترقی کریں گی اور اولاد کو بھی ترقی یافتہ اٹھائیں گی۔
        ایک صاحب نے میرے سامنے یہی دلیل بیان کی تھی میں نے کہا کہ مسلمانوں میں صرف شرفاء کی عورتیں پردہ نشیں ہیں جن کی تعداد ہندوستان میں بہت کم ہے ، زیادہ تعداد تو چھوٹی قوموں کی ہے اور ان میں پردہ کا ہمیشہ سے رواج نہیں ہے اگر بے پردگی کو ترقی میں کچھ دخل ہے تو ان قوموں نے کیوں نہ کرلی ۔ بس اس کا جواب کچھ نہ تھا۔ وہ میرا منہ تکنے لگے۔(العبرۃ بذبح البقرہ  ص 45)


0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔