Pages

ہفتہ، 7 دسمبر، 2013

تخلیق آدم، قرآن اور جدید سائنس کی روشنی میں


تخلیق آدم، قرآن اور جدید سائنس کی روشنی میں


قرآن کریم کو جدید دور کے سائنسی تقاضوں کے تناظر میں پڑھنا اور سمجھنا  بہت ضروری 

ہوگیا ہے۔ جدید سائنسی نظریات کے تناظر میں اگر ہماری نوجوان نسل کی رہنمائی نہ کی 

گئی تو وہ دین سے بہت دور ہو جائے گی اور ان کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ کس نظریہ 

کو تسلیم کرے۔ اگر یہ نسل تخلیق آدم کے بارے میں ہماری روایتی دینی تعلیم اور اس 

میں بیان کردہ نظریہ کو سامنے رکھ کر جدید سائنسی نظریہ پر غور کرتی ہے جو انسان کی 

تخلیق کے ارتقائی عمل سے متعلق ہے تو دورِ جدید کے ذہن کے لئے ہر دو نظریات پر 

بیک وقت یقین کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے کیونکہ بادی النظر میں یہ دونوں نظریے آپس 

میں متضاد و متصادم دکھائی دیتے ہیں اور اگر کوئی ان دونوں نظریوں کو ساتھ لے کر 

چلنے  کی کوشش کرتا ہے تو وہ ذہنی انتشار کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے۔ ہمیں ان خدشات 

کو مد  نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا اور یہ تبھی ممکن ہے کہ 

جب ہمیں  جدید سائنس خصوصاً (Creation & Evolution ) کا بھی پوری طرح سے 

ادراک ہو۔ 2006ء تک تخلیق آدم کے سلسلہ میں Evolutionist کے مقابل 

Creationist اس بات کو چیلنج کرتے تھے کہ تدریجی ارتقائی عمل تو ایک عام پروٹین 

کی تخلیق کی بھی وضاحت نہیں کرسکتا جب کہ تخلیق آدم میں DNA اور RNA جو 

جینوم کی اکائیاں ہیں اور انتہائی پیچیدہ پروٹین کی شکلیں ہیں وہ صرف اور صرف ارتقائی 

عمل سے کیسے وجود میں آسکتی ہیں؟ میں نے اس سلسلہ میں امریکہ کے ایک موقر 

جریدے ’’سائنٹفک امریکن‘‘ کو ایک مراسلہ لکھا کہ آپ قرآن حکیم کی آیاتِ کریمہ 

(الحجر15:26، الرحمن 55:14) کو اگر غور سے پڑھیں تو یہ زمین کی عمیق گہرائیوں میں 

بتدریج تخلیق کی اکائی (DNA اور RNA ) کی طرف اشارہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ 

بعد ازاں ’’سائنٹفک امریکن‘‘ کے 2009ء ستمبر کے شمارے میں ایک مضمون شائع ہوا 

جس کی تفصیل آگے آئے گی اور وہ تقریباً ان آیاتِ کریمہ کی مکمل تفسیر بیان کرتا ہے۔


پیشتر اس کے کہ ہم اس مضمون کو آگے بڑھائیں ہمارے لئے سائنس کی اصطلاح میں 

انسانی روح اور بدنی اکائی کا جاننا ضروری ہے۔ سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ ہماری 

روح اور بدنی اکائی جینوم (Genome ) ہے جس کے ڈی این اے (DNA ) اور آر 

این اے (RNA ) دو جزو ہیں آئندہ سطور میں ہم قرآن کریم کی روشنی میں زمین پر 

جینوم کی پیدائش اور ارتقاء کی وضاحت کریں گے.

         تخلیق آدم کی ابتداء کے ضمن میں قرآن کریم میں جو الفاظ آتے ہیں ان کی 

تفصیل کچھ یوں ہے:

اَرْض ، تُرَاب ، طِیْن ، سلالۃ من طین ، 

صلصال من حما مسنون ، صَلْصَال کالفخار

قرآن کریم میں آدم کی پیدائش کے لئے جو الفاظ آتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

خلق ، انشأ ، انبت ۔

سب سے پہلے ہم ان الفاظ کے لغوی معانی تحقیق کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔



انبت:  اگانا، پروان چڑھانا، بتدریج بڑھانا، حیاتیاتی عمل وقوع پذیر ہونا۔ نامیاتی عمل 

وقوع 

پذیر ہونا۔ (dictionary.sensagent.com ) (لسان العرب) 


انشأ: ابتداء کرنا، پیدا کرنا، اٹھانا، بلند کرنا۔ (لسان العرب) 


خلق: پیدا کرنا، ابتداء کرنا، بنیاد رکھنا۔ (لسان العرب) 


ارض : زمین، خشکی، مٹی، فرش۔ (
dictionary.sensagent.com ) 


طین : (گارا، کیچڑ، دلدل۔) طین 


تراب : (زمین، سطح زمین، مٹی۔) تراب 



(
۱) صَلْصَال : ایسی مٹی جس میں ریت بھی شامل ہو اور جب وہ سوکھ جائے تو آواز دینے لگے۔ 


(
۲) فَخّار  : جب ’’صلصال‘‘ کو آگ دی جائے تو وہ ’’فخّار‘‘ کہلاتی ہے۔ (انتہائی گرم سطح 

پر زمین کی ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے) 


(
۳) حما : سیاہ مٹی زمین کی عمیق گہرائیوں میں موجود مختلف معدنیات اور نمکیات وغیرہ کی 

طرف اشارہ ہے 


(
۴) مسنون : ایسی چیز جس کی حالت بدل دی گئی ہو اور بدبودار ہو۔ جس کی شکل تبدیل 

 کردی گئی ہو۔ جس کو ڈھالا گیا ہو۔ جس کو رگڑا گیا ہو۔ (لسان العرب)

 معدنیات و نمکیات کا مسلسل اور متواتر انتہائی گرم اور انتہائی سرد طبقات الارض کے 

درمیان گردش رگڑ اورڈھلنے کا عمل۔ 


(
۵) سُلالۃ : اصل، جوہر۔ 


(
۱-۵) ان تمام الفاظ کی تفصیل اور تفسیر کے تناظر میں اگر ہم آدم کی تخلیقی اکائی یعنی 

ابتدائی جزو ’’جین‘‘ کی مرحلہ وار تخلیق کو پرکھیں اور زمین کی عمیق گہرائیوں پہ نظر 

دوڑائیں تو یہ سڑا ہوا گارا (سیاہ مٹی)، آگ، ریت، ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی زمین وغیرہ 

ہمیں تخلیق آدم کی ابتداء میں DNA ، اور RNA کے پیدا کرنے سے متعلق بہت سے اشارے دیتی ہے۔

           اﷲ رب العزت نے انسان کی تخلیق اسی زمین پر کی ہے۔ اور اس کی تخلیق کے 

لئے تمام ضروری اجزاء بھی اسی زمین سے مہیا کئے ہیں۔ ارشاد ہے:

ھُوَ اَنْشَأَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ (ہود 11:61)

اس (ﷲ) نے تمہیں زمین (میں) سے بنایا۔ 

             اسی طرح قرآن حکیم میں یہ بات بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ تخلیق 

انسان کے ضمن میں جتنے بھی مراحل درکار تھے وہ بھی تمام کے تمام اسی زمین پر مکمل 

کیے گئے ہیں۔ قرآن کریم میں انسان کی زمین سے بتدریج تخلیق کے بارے میں ارشاد 

ہے:

(ارض) قرآن کریم میں انسان کی تبدریج مٹی سے تخلیق کے بارے میں ارشاد ہے:

وَ اللّٰہُ اَ نْبَتَــکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَـبَـا تًا (نوح 71:17)

’’اور ﷲ نے تم کو زمین سے (بتدریج) ایک ( خاص) اہتمام سے اگایا (یعنی پروان 
چڑھایا) ہے۔‘‘

جب یہ بات واضح ہوگئی کہ تخلیق آدم کا تمام ارتقائی عمل اسی زمین پر مکمل ہوا تو درج 

ذیل آیت ملاحظہ فرمائیں جس میں اﷲ رب العزت نے تخلیق آدم کی ابتداء کے بارے 

میں ایک نہایت ہی اہم بات ارشاد فرمائی ہے۔ ارشاد ہے:

وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ (الحجر15:26)

اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے بے شک میں تخلیق کرنے والا ہوں بشر کو 

کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے۔ 

بالکل اسی طرح کا مضمون اسی سورۃ کی آیت نمبر26 اور 33 میں بھی وارد ہوا ہے جبکہ 

اسی طرح کا ایک اور مضمون قدرے تغیر کے ساتھ سورۃ رحمن کی آیت نمبر 14 میں آیا ہے۔ ارشاد ہے:


خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ (الرحمٰن 55:14) 

’’اس (اﷲ) نے انسان کو کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا جیسے ٹھیکرا۔‘‘

مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں سائنٹفک امریکن کے جریدہ ستمبر 2009 کے صفحہ نمبر 

38 پر دیے گئے مضمون Life on Erarth جسے David Attenborough نے ترتیب 

دیا توجہ سے پڑھنے پر آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ مضمون در اصل سورۃ الحجر15 آیت نمبر 

26,28 اور سورۃ رحمن 55 آیت 14 کی تفسیر ہے اس مضمون میں تخلیق آدم سے متعلق 

DNA کے لازمی جزو یعنی Nucliac Acid کی تخلیق کے عمل میں Peptide 

Nucliac Acid کی تخلیق کے عمل کو تفصیل سے بیان کیا گیاہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ یہ 

زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں کھنکھناتی مٹی اور سڑے ہوئے گارے کے مابین وقوع پذیر 

ہونے والا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ آپ لفظ ’’صلصال کالفخار‘‘ اور ’’صلصال من حما مسنون‘‘ 

کے عربی تراجم دیکھیں تو آپ حیران ہوجائیں گے کہ خداوند قدوس نے کس خوبصورتی 

سے تخلیق آدم کے عمل کو چند الفاظ میں بیان کردیا ہے۔ 
Researchers have found that the genetic molecule RNA could have 

formed from chemicals (black earthy material) present in the early 

earth. Other studies have supported this concept that primitive 

cells containing molecules similar to RNA could assemble 

spontaneously, reproduce and evolve, giving rise to nucleobases, 

peptide nucleic acid the proto cells and hence forming the basis of 

life. (Life on Earth-Scientific American Sep 2009 (


Salsal Kalfakhar" and "Hama Masnoon " صلصال کالفخار، حما مسنون, if we 

carefully concentrate on the meaning of these two words 

mentioned in the Holy Qur'an are referring to the details of the 

chemical process taking place deep down in the early Earth)


DNA اور RNA

Molecules کی تخلیق میں فاسفیٹ اور شوگر کے ذرات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے 

ہیں اور یہ ذرات زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں دوسرے معدنیات کے ساتھ شروع ہی سے 

موجود تھے۔ تخلیق کے عمل میں وہ معدنیات جن میں فاسفورس یا فاسفیٹ موجود تھی 

انتہائی گرم درجہ حرارت پر محلول (Soluble State ) میں بدل جاتی تھیں یہ عمل 

دوسری جانب (شاید برف سے ڈھکے ہوے) ٹھنڈے پانی سے تعامل کرکے دوبارہ ان 

معدنیات کو ٹھوس شکل میں بدل دیتا تھا۔ ان دو انتہائی درجہ حرارت کے درمیان جب یہ 

فاسفیٹ اور شوگر پانی کی موجودگی میں انتہائی گرم حالت سے یکدم ٹھنڈے ہوتے تھے 

اور پھر گرم ہوتے تھے تو اس عمل کا باربار دہرایا جانا DNA اور RNA کی تخلیق میں 

کلیدی عامل ہونے کا سبب بنا۔ (جریدہ سائنٹفک امریکن کے مضمون کے متن سے ماخوذ) 



Peptide Nucliac Acid کی تخلیق کا عمل زمین کی عمیق گہرائیوں میں طے ہونا قرار 

پایا۔ پھر یہ Genetic array صدیوں پر محیط وقت میں بتدریج جینیاتی تبدیلی کے ساتھ 

Nucliac acid اور پھر ’’تراب‘‘ Genetic Permutation of Sperm جو در اصل 

نطفہ کا جینیاتی نعم البدل ہے کی شکل دھار لیتا ہے جو بالآخر ’’طین‘‘ پر اپنے ارتقائی عمل 

کو مکمل کرلیتا ہے۔ ’’طین‘‘ در اصل نطفہ اور بیضہ کے ملاپ کے جینیاتی نعم البدل یعنی 

Genetic permutation of Fertilzed Ovum کو ظاہر کرتا ہے۔


 
قرآن کریم میں لفظ تراب کو بہت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے:

سورہ کہف 18 آیت نمبر 37، سورہ الحج 22 آیت نمبر 5، سورہ فاطر 35 آیت نمبر 11 

میں اس بات کو تکرار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ


’’پہلے میں نے تمہیں تراب سے پیدا کیا پھر نطفہ سے‘‘


جبکہ سورہ آل عمران 3 آیت نمبر 59 میں آتا ہے کہ ’’بے شک (تخلیق) عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے بنایا اُس (آدم) کو تراب سے پھر اُسے کہا ’ہوجا‘، پس وہ ہوگیا۔ 
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ط خَلَقَ
ـــہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَــــہ کُنْ فَـیَـکُوْنُ (آلِ عمران 3:59)
’’بے شک عیسٰی کی مثال اﷲ کے نزدیک آدم کی مثال جیسی ہے۔ بنایا اس (آدم) کو ’’تراب‘‘ سے پھر اسے کہا ہو جا پس وہ ہوگیا۔‘‘

اب آپ قرآن کریم کی ان آیات کو پڑھیں جن میں تخلیق آدم سے متعلق یہ لکھا ہے کہ میں نے پہلے تمہیں تراب سے پیدا کیا پھر نطفہ سے اور اس کی تکرار تین آیات میں کریمہ میں ہے:

خَلَقَکَ مِنْ تُرْابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ (کہف 18:37)
’’اس (اﷲ) نے تمہیں تراب سے پیدا کیا پھر نطفہ سے۔‘‘

       حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش میں مرد (نطفہ) کا کوئی عمل نہیں تو پھر تراب جس کے لغوی معنی مٹی وغیرہ کے لئے گئے ہیں کا کیا عمل ہوسکتا ہے۔ یہ آیت کریمہ واضح طور پر جینیاتی عمل کی طرف اشارہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اور لفظ تراب کے معنی نطفہ کا جینیاتی نعم البدل (Genetic Permutation of Sperm ) بتاتی ہے۔ جبکہ تخلیق آدم میں لفظ ’’طین‘‘ اور ’’طین کے جوہر‘‘ کی تفصیل قرآنِ کریم کی ان آیاتِ کریمہ میں بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان ہوئی ہے۔ 

الَّذِیْ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْیئٍ خَلَقَ
ــہ وَ بَدَ اَ خَلْقَ الْاِ نْسَا نِ مِنْ طِیْنٍo ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآئٍ مَّھِیْنٍ o (السجدۃ 32:7,8)
جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی پیدائش گارے (طین) سے شروع کی۔ پھر اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کے جوہر (نطفہ یعنی تراب) سے چلائی۔ 
دوسری جگہ ارشاد ہے:

وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِ نْسَا نَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍٍ
o ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍٍ مَّکِیْنٍٍo (المؤمنون 23:12,13)
یقینا ہم نے انسان کو ’’طین‘‘ کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا۔

یہ دونوں آیات ’’طین‘‘ یعنی ابتدائی جینیاتی تخلیق اور بعد ازاں زمین پر انسانی تخلیق کے مراحل کو بہت خوبصورتی سے بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ’’طین‘‘ سے ایک انسان کی تخلیق عمل میں آتی ہے اور اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کا جوہر (نطفہ) سے عمل میں آتی ہے (دوسری آیات میں) اسی طین کے جوہر (نطفہ) سے اس کی نسل کی آئندہ تخلیق کے عمل کو (بیضہ اور نطفہ کے ملاپ کا جینیاتی متبادل) جاری رکھا اور اس جوہر (تراب) کو نطفہ بناکر ایک محفوظ جگہ (
Testicles ) خصیے میں رکھ دیا۔ 

        پہلے تخلیق آدم کی بنیاد تراب تھی جو بعد میں نطفہ سے آگے بڑھی در اصل ارتقائی عمل جس میں ’’تراب‘‘ جو در اصل نطفہ کا جینیاتی نعم البدل ہے اس بات کی طرف واضح اشارہ کررہا ہے کہ تخلیق آدم کا عمل ہر مرحلہ میں ایک جینیاتی تبدیلی کا مرہونِ منت رہا ہے اور جب مکمل انسان (آدم، حوا) کی تخلیق ہوگئی تو بعد ازاں انسانی نسل کا اجراء نطفہ سے ہوا۔ یعنی تراب ہماری جینز کی ترتیب ہے جو بعد میں نطفہ یعنی Sperm کی عملی شکل بن گئی۔
    حضرت عیسیٰ کی پیدائش میں مرد کا کوئی حصہ نہیں یعنی نطفہ نہیں تو پھر یہ عمل ovum میں جینز کی ترتیب کو ایک مادۂ تولید کی جگہ عمل میں لا کر مکمل کیا گیا۔ 

جب انسان (آدم، حوا) کی تخلیق ہوگئی تو بعد ازاں انسانی نسل کی افزائش نطفہ سے جاری رہی۔ تخلیق کے ارتقائی عمل کو آگے بیان کرنے سے پیشتر سورہ الاعراف 7 کی آیت نمبر 172 پر نظر دوڑائیں:

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ مبَنِیْ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِ ھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَ اَشْھَدَ ھُمْ عَلٰٓی اَ نْفُسِھِمْ اَ لَسْتُ بِرَ بِّکُمْ ط قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غٰفِلِیْنَ (الاعراف 7:172)
اور جب تمہارے رب نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے ان ہی کے متعلق اقرار کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا) کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ وہ کہنے لگے کیوں نہیں۔ ہم گواہ بنتے ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے) یہ اقرار اس لئے کرایا تھا کہ قیامت کے دن یوں نہ کہو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔ 

یہ آیت کریمہ تخلیق آدم کی اولین حیثیت کو واضح طور پر بیان کرتی ہے جو لفظ ’’طین‘‘ در اصل ایک جینیاتی عمل کی ایک شکل (
Fertilized ovum ) ہے اور اس کی پشت سے پیدا ہونے والی اولاد ایک جینیاتی عمل ہے اسے آپ کچھ اس انداز سے دیکھیں ایک ماہر انجینئر کسی بلڈنگ کا ڈیزائن بناتا ہے اور بعد میں اس کی تعمیر اینٹ، بجری، سیمنٹ، لوہا وغیرہ سے شروع کی جاتی ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کا حتمی طور پر اشارہ کررہی ہے کہ ہماری اولاً تخلیق کا عمل جینیاتی تھا اور اُس جینیاتی مخلوق سے ہی وعدہ لیا گیا کہ
 ’’تمہارا رب کون ہے؟‘‘

یہاں پر ایک بات قابل غور ہے کہ خداوند قدوس نے انسان (جینیاتی ماڈل) کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور پھر فرشتوں اور ابلیس سے اس کو سجدہ کرنے کے لئے کہا جس پر ابلیس نے انکا رکیا۔ اگر آدم یعنی انسان کی تخلیق آسمانوں
میں ہماری طرح ہوتی تو اس کی پشت سے پیدا ہونے والی اولاد بھی روز اول سے قیامت تک بعینہ ہماری شکل کی ہوتی جس سے وعدہ لیا گیا تھا کہ تمہارا رب کون ہے۔ لیکن اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ آدم کی پہلی تخلیق مٹی سے انسانی شکل میں ہوئی مگر اس کی پشت سے پیدا ہونے والی اولاد ارواح تھیں جن سے رب العزت نے وعدہ لیا۔ ’’اَلَسْتُ ِبِرَبِّکُمْ‘‘ اگر ہم سورۃ نوح کی سترہویں آیت کریمہ کو سامنے رکھتے ہوئے انسان کی تخلیق بتدریج مٹی سے ہونے کو سامنے رکھیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا تھا کہ یہ آدم اپنی تخلیق کے پورے مراحل زمین یا آسمانوں میں طے کر گیااور پھر جنت میں اُ س نے رب العزت کے احکامات کی تعمیل میں لغزش برتی۔ آگے کے واقعات آپ کے سامنے ہیں۔ لیکن ان ہر دو صورتوں میں ہماری تخلیق آسمانوں میں بھی انسانی حیثیت میں ہوتی، ایسی کوئی بات مسلمہ طور پر سامنے نہیں آتی۔ 
انسان کی تخلیق مٹی سے بتدریج ہونے کے تمام شواہد قرآنِ کریم کی آیات کے مندرجات سے واضح کردیئے گئے ہیں۔ یہاں ایک بات جو قرآنِ کریم اور سائنس میں قطعی طور پر مطابقت رکھتی ہے وہ نسلِ انسانی کی تخلیق میں ایک حوا (
mitochondrial ) کا رول ماڈل ہے جو بعد میں کرۂ ارض کے تمام حصوں میں افریقہ سے پیدا ہونے کے بعد پھیل گیا۔ نیز یہ بات بھی خصوصی طورپر توجہ طلب ہے کہ جب بندروں کی نسل کرۂ ارض کے تمام حصوں میں پروان چڑھ رہی تھی تو پھریہ کیوں صرف اور صرف افریقہ ہی میں جدید دور کے انسان کی شکل میں پروان چڑھ سکی اور زود یا بدیر یہ دنیا کے دیگر حصوں میں کیونکر ممکن نہ ہوسکا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جینیاتی کوڈ جو قدرت نے انسانی تخلیق کے لئے مخصوص کیا وہ اپنے انداز میں ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے خاص حالات میں بالآخر ایک جدید انسان بن سکا۔ 

وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہ تَقْدِیْرًا
اور (اﷲ ہی نے) ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا۔ (یعنی تخلیق کا کوڈ اس کے جینوم میں لکھ دیا اور اس کے لئے متعین کردیا)

اور حیران کن بات یہ ہے کہ جدید سائنسدان بھی (دیکھئے حوالہ (
National Geographic Feb, 2009 ) اس بات پر متفق ہیں کہ ہر جاندار کے اندر اس کی تخلیق کا کوڈ اس کے (Genome )یعنیDNA, RNAمیں لکھ دیا گیا ہے۔ یعنی قدرت ایک ایسی طاقت ہے کہ جس کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہے جس نے اس قدر پیچیدہ کوڈ جو ساڑھے تین ارب حروف (Letters ) پر مشتمل ہے (اگر ایک سیکنڈ میں ہم دس حروف پڑھ سکیں تو ہمیں مکمل متن پڑھنے کے لئے گیارہ سال درکار ہوں گے) انسان کے جینوم میں لکھ دیا۔ اس کوڈ کو ابھی تک قطعی طور پر سمجھنا انسانی ذہن کے لئے تقریباً ناممکن ہے۔ یہ تمام بحث اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ہر انسان کی تخلیق خداوند قدوس نے اپنے ہاتھوں سے مخصوص مقصد کے لئے فرمائی۔ جس نے بعد میں اپنا ارتقائی عمل جاری رکھا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے رب العزت نے زمینوں اور آسمانوں کو حکم دیا کہ ہو جائو یعنی ’’کُن‘‘ تو ’’فَیَکُوْن‘‘ یعنی تمام وسائل عوامل اور اصول جو کائنات کی تخلیق کے لئے ضروری تھے۔ پہلے ایک سیکنڈ میں وجود میں آ گئے اور پھر کائنات نے تخلیق کے عمل کو جاری رکھا جس کو اربوں سال پر محیط ایک لمبا سفر طے کرنا پڑا۔ اسی طرح انسانی وجود DNA, RNA یعنی Genome اور Genetic Array کو رب العزت نے اپنے ہاتھوں سے آسمانوں میں ایک ماڈل (آدم و حوا) کی شکل میں تخلیق کیا اور پھر اس زمین پر اپنا ارتقائی عمل جاری رکھتے ہوئے کتنا وقت لگا اس کا اندازہ شاید ہی ہم کر سکیں۔
تخلیق کا ارتقائی عمل ہمارے کئی عقدے حل کرتا ہے ان میں سب سے اچھوتی بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق میں جن جینوم نے حصہ لیا وہ کوئی غیر معمولی نوعیت کے نہیں بلکہ یہ تو وہی جینز ہیں جو دوسری مخلوقات میں پائی جاتی ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے مختلف بلڈنگ بنانے کے لئے آپ کو مختلف بلڈنگ مٹیریل درکار نہیں ہوتا ویسے ہی مختلف کتابیں لکھنے کے لئے آپ کو مختلف الفاظ درکار نہیں ہوتے۔اس طرح ہمارے Genome کی ساخت اور نوعیت تقریباً 60% فیصد وہی ہے جو چوہے میں ہے جبکہ چمپنزی (chimpanzee ) کے ساتھ ہماری جینیاتی مماثلت 99% فیصد ہے اور نوع انسانی کے جینیاتی ماڈل آپس میں 99.9% فیصد مطابقت رکھتے ہیں یعنی ہم جیناتی اعتبار سے صرف 0.1% فیصد ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دراصل تخلیق انسان کوئی ایسی چیز تو ہے نہیں جسے فیکٹری میں جوڑا جائے یہ تو ماحول، دیگر اثرات کے اندر پرورش پاتی ہے اور پروان چڑہتی ہے اسی لئے ارتقائی عمل کا اسکے وجود پر اثر انداز ہونا ثابت ہوتا ہے۔ 
ماحول کا ارتقائی عمل پر اثر انداز ہونے کے عمل کو
Micro Evolution کہتے ہیں جب کہ Evolution Macro قطعی طور پر موروثی جینیاتی کوڈ (Inbuilt Genetic Code ) پر منحصر ہے جو قدرت(Nature )نے اس کے لئے لکھ دیا ہے اب آپ اس قدرت کو رب العزت یا God یا بھگوان جو بھی چاہیں نام دے دیں یہ آپ کی صوابدید پر ہے۔ خداوند قدوس فرماتے ہیں: 

قَالَ یٰٓاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلْقَتُ بِیَدَیَّ ط اَسْتَ
ــکْبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ (صٓ 38:75) 
(ﷲ تعالیٰ نے فرمایا) اے ابلیس تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا۔ یہ تو نے غرور کیا یا تو بڑا تھا درجہ میں؟

       یعنی میں نے آدم کو اپنے ہاتھ سے بنایا۔ تخلیق آدم کے وقت دراصل انسان کا جو مکمل
Genetic Code تھا خداوند قدوس نے تخلیق فرما کر اسے کوئی بھی شکل دی کیونکہ وہ قادرِ مطلق ہے اور جو چیز جیسے بھی چاہے ترتیب دے سکتا ہے۔ تخلیق آدم کے ساتھ حوا کی تخلیق پسلی سے کرنا انتہائی ذو معنی عمل ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ اس سے مراد متوازی یعنی  Parallel تخلیق ہو کہ جب آدم کے Genome ترتیب دئیے جا رہے تھے ساتھ ہی ساتھ حوا کے Genome کی تخلیق بھی جاری تھی بہرحال یہ تمام بحث اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ تخلیق آدم ایک پہلے سے طے شدہ مٹی سے بتدریج تخلیق کے مراحل طے کرنے والی Pre-determind, Pre-ordained حقیقت تھی اور باقی تمام مخلوق اس Genetic Array کی مختلف صورتوں میں ظہور پذیر ہونے والی خالق کائنات کا انعام تھا اور ’’پھر آدم اور حوا کی پشت سے پیدا ہونے والی اولاد سے (روز اول سے روز آخر تک) میں نے وعدہ لیا کہ تمہارا رب کون ہے تو تمام مخلو ق نے اس بات کا اقرار کیا کہ آپ ہمارے رب ہیں۔ ‘‘

      جانداروں کی تخلیق کے بارے میں قرآن پاک میں واضح طور پر اعلان ہوتا ہے کہ میں نے تمام جانداروں کو پانی سے پیدا کیا:

وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَّآءٍ ۔ فَمِنْھُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰی بَطْنِہ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰٓی اَرْبَعٍ ط یَخْلُقُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ
o 
’’اور اﷲ نے پیدا کیا ہے ہر جاندار کو پانی سے سو ان میں سے وہ بھی ہیں جو چلتے ہیں پیٹ کے بل اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو چلتے ہیں دو ٹانگوں پر اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو چلتے ہیں چار ٹانگوں پر پیدا فرماتا ہے اﷲ جو چاہتا ہے۔بے شک اﷲ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے‘‘ (النور 45:24)

    ہم آج تک یہ پڑھتے آئے تھے کہ تخلیق کے ابتدائی مراحل میں رینگنے والے جاندار ظہور میں آئے پھر وہ 4 ٹانگوں پر چلنا شروع ہوئے بعد میں انہوں نے 2 ٹانگوں پر چلنا شروع کردیا (یعنی انسان) لیکن قرآن حکیم کی یہ آیت کریمہ کچھ ترتیب الٹ بتا رہی ہے یعنی پہلے جاندار رینگ رہے تھے پھر انہوں نے 2 ٹانگوں پر اور بعد میں 4 ٹانگوں پر چلنا شروع کردیا۔ 

جدید تحقیق اس بات پر متفق ہے کہ سب سے پہلی مچھلی mudskippers نے اپنے اگلے فِن جو پائوں جیسی حرکت کرتے تھے سے چلنا شروع کیا اسی قسم کی دوسری مچھلی Lungfish تھی جس نے دو پائوں پر چلنا شروع کیا۔یہ ذکر چالیس کروڑ سال کا ہے پھر ان 2 ٹانگوں والے Lethyostega پہلے جانور تھے جنہوں نے چار ٹانگوں پر چلنا شروع کیا یہ ذکر پینتیس کروڑ سال کا ہے۔ 
(
Invasion of the land; life on earth. Page149 by David Attenborough )

( سورۃ النور 45:24) اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب جینوم کے ارتقارئی عمل کی ترتیب جاری تھی تو اس کی ابتداء ہی سے دو بڑی شاخیں ترتیب میں آئیں؛ ایک تو وہ جس نے انسان بننا تھا اور دوسری وہ جس نے آخر کار مختلف اقسام کے جاندار بننا تھا۔ یہ آیت کریمہ
Evolutionist سائنسدانوں کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ 

اسی طرح انسان کو اول تراب سے پھر نطفہ سے پیدا کیا۔ (سورۃ مومن ، آیت 67۔ سورۃ فاطر،آیت 11۔ سورۃ نوح، آیت 17) یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اکثر حضرات بتدریج مٹی کے پیدا کرنے کو ہماری خوراک سے مناسبت دیتے ہیں جب کہ ایسا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو قرآن کریم میں ہر آیت کریمہ میں نطفہ کا لفظ پہلے اور تراب کا لفظ بعد میں استعمال ہوتا۔ اس تمام بحث کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہماری تخلیق جو رب العزت نے اپنے ہاتھ سے کی دراصل وہ ہماری روح اور بدنی تعمیر کا نقطۂ آغاز (Genome ) تھا اور اس آدم اور حوا کی پشت سے پیدا ہونے والی اولاد کا مطلب بھی   Genome سے ارتقائی عمل کا وجودمیں آنا تھا۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 59 میں خداوندِ قدوس نے آدم کی پیدائش کو عیسیٰ کی پیدائش سے مشابہت دی ہے تو ذرا غور کریں کیا یہ سب عمل جینیاتی بنیاد (Genetic Level ) پر نہیں کیا گیا۔ یہاں پر وہ تمام عوامل جو ڈارون کے مسئلہ کو ثابت کرتے ہیں یا اُس کے خلاف جاتے ہیں ان کا تھوڑا سا ذکر کریں گے۔ آج سے تقریباً 160 برس پہلے جب ڈارون نے کہا کہ ہماری تخلیق بتدریج عمل میں آئی ہے اس کو ہر ایک نے آج تک سراہا۔ لیکن جس بات پر آج تک کوئی متفق نہیں ہو سکا وہ یہ کہ: پروٹین Protein, Amino Acids or Nucliec Acid کسی بھی طرح سے صرف ارتقائی عمل سے وجود میں نہیں آ سکتی تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان کی تخلیق صرف اور صرف ارتقائی عمل سے وجود میں آئی ہو جس میں ایک Supreme Nature کا کوئی عمل دخل نہ ہو وہ پروٹین جو ہماری تخلیق کے بنیادی اجزاء ہیں وہ کس طرح معرضِ وجود میں آئے اور سب سے بڑی بات یہ کہ Evolution اس بات کو قطعی طور پر ثابت نہیں کر سکی کہ روح کیا ہے؟ کچھ سائنسدان اس بات پر مُصر ہیں کہ زندگی شہاب ِثاقب کے ذریعے فضا سے زمین پر آئی پھر سوال اٹھتا ہے کہ فضائے بسیط میں روح یا زندگی کا وجود کہاں سے ممکن ہوا۔ ان بہت سے عوامل کے ساتھ سائنسدانوں کے لئے دعوت فکر ہے کہ جب تدریجی ارتقائی عمل دُنیا کے ہر کونے میں ہو رہا تھا تو پھر کیوں نہ بندروں کی ہر نسل نے جو کُرہ ِ ارض کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر تھی نسلِ انسانی کو جنم دیا اور یہ کیونکر صرف اور صرف افریقہ ہی میں پیدا ہو کر دنیا کے تمام خطوں میں پھیل گیا۔ یہی نظریہ آج تمام مکاتب ِ فکر کو قبول ہے۔ سائنس اس بات پر اتفاق رکھتی ہے کہ ہماری ماں (Mitochondrial Eve ) کی تخلیق تقریباً دو لاکھ سال پہلے افریقہ ہی میں ہوئی جس سے بنی نوع انسان معرض وجود میں آئی۔ یہ بات قرآن پاک کی اس آیت کریمہ (سورۃالنسائ:2) سے مطابقت رکھتی ہے کہ تمھارے جدِ امجد ایک ہیں (آدم اور حوا) اور پھر ہم اگر ایک دفعہ انسان کی تخلیق آسمانوں میں تصور کریں کہ خداوند قدوس نے دراصل سب سے بہترین تخلیق آدم کے Genome (جینوم ) کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور وہ کوڈ اس کے Genetic Procenium میں تفویض کر دیا گیا۔ (سورۃ ص 75:38) اور پھر وہ ایک مخصوص طریقہ سے بتدریج پروان چڑھتے ہوئے بالآخر خالقِ دو جہان کی اشرف المخلوقات کہلانے کا شرف حاصل کر سکا۔ 

یہ تمام بحث اس بات کو حتمی طور پر ثابت کرتی ہے:

 ٭ کہ تخلیق آدم (انسان) ایک پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق عمل میں آیا جس پر سائنس اور قرآن دونوں کا اتفاق ہے۔

٭ تمام انسان ایک حوا کی اولاد ہیں۔

٭ انسان کی تخلیق کا عمل بتدریج ارتقائی پروگرام کے تحت خاص حالات میں مخصوص کئے گئے طریقہ سے عمل میں آیا اور یہ تمام عمل ایک انتہائی پیچیدہ کوڈ کا رہینِ منت رہا جس کو ایک عظیم قدرت نے اپنے وسیع علم کے مطابق ترتیب دیا۔
آپ ضرور جاننا چاہیں گے کہ ہم مرنے کے بعد پھر کس طرح اُٹھائے جائیں گے اور ہمارے ہاتھ پائوں ہمارے کئے دھرے یا اعمال کا حساب کیسے دیں گے۔

آئیں ہم پہلے سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں۔

تخلیق آدم کے سلسلہ میں جینوم کا ذکر کیا گیا جن پر تقریباً ساڑھے تین ارب کوڈ لکھے گئے ہیں۔ یہ پیغام (کوڈ) ہر جاندار کے لئے ہر انسان کے لئے رب العزت نے خاص کر دیا ہے۔ ہم روز مرہ کے معمولات میں اپنے جسم کے ان گنت خلیے زمین کی ہارڈ ڈسک میں بکھیرتے جا رہے ہیں اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم مختلف مضامین، تصاویر، وڈیو فلمیں وغیرہ کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک میں کوڈ کی صورت میں محفوظ کرتے ہیں اور ایسے ہی اس ڈیٹا کو سکرین پر واپس لانے کے لئے ہمیں ایک معمولی سے اشارہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے جینوم کے کوڈ ہر انسان کے لئے خاص کر دئیے گئے ہیں۔ تصور تو کریں رب العزت فرماتے ہیں کہ میرے ایک ہی حکم سے تمام انسان اپنی اصلی شکل میں واپس میرے حضور
پیش ہو جائیں گے۔ کیا یہ ایسا نہیں جو کچھ ہم کمپیوٹر کی سکرین پر دیکھتے ہیں۔

اِنْ کَانَتْ اِلاَّ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَاہُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ 
صرف ایک زور کی آواز کا ہونا ہوگا کہ سب کے سب ہمارے روبرو آ حاضر ہوں گے۔(یٰسٓ 36:53)

اب ہم دوسرے سوال کی طرف آتے ہیں :
یہ سلیکون(selicon) کیا ہے ؟
یہ مٹیریل زمین سے حاصل کیا جاتا ہے جو کمپیوٹر میں ڈیٹا سٹور کرتا ہے۔
کیا سلیکون
(selicon) کے علاوہ بھی کوئی چیز ایسی ہو سکتی ہے جو ڈیٹا (data) سٹور کرے؟
کیوں نہیں اب
Nano Computer اس کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔

ہماری بدنی ساخت کیا ہے ؟
ہم مٹی سے بنے ہیں اور مرکب ہیں مختلف نمکیات، دھاتوں اور پانی کا۔ تو ہماری اس چھوٹی سی بات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے جسم کے اندر کوئی ایسی چیز بھی ہو سکتی ہے جو ہمارے روز مرہ کے معاملات کو کمپیوٹر کی طرح محفوظ کئے جارہی ہے جو بالآخر روز ِ حساب رب العزت کے سامنے ہمارے نامہ اعمال کو کھول کر پیش کردے۔ 


اور قرآن کریم میں سورہ یٰسین 36 کی آیت نمبر 65 اس ضمن میں واضح طور
پر بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جب ہم روزِ قیامت رب العزت کے سامنے پیش ہوں گے تو ہمارے ہاتھ اور پائوں گواہی دیں گے ہمارے اُن اعمال کا جو ہم دنیا میں کرتے رہیں۔
اس مضمون میں ہم تخلیق آدم کے سلسلہ میں زمین سے بتدریج ارتقائی عمل کو واضح طور پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور پھر یہ کہ ہمیں مرنے کے بعد کس طرح اٹھایا جائے گا اوریہ کہ ہمارے ہاتھ اور پائوں ہمارے اعمال کا کس طرح حساب دیں گے۔
مکمل تحریر >>