Pages

ہفتہ، 9 اپریل، 2016

قرآن اللہ کی کتاب ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآنِ مجید اللہ کی کتاب ہے، یہ انسانیت کے لئے ابدی پیغام اور زندہ دستور العمل ہے، یہ بیک وقت دماغ کو بھی مطمئن کرتی ہے اور بربط دل کو بھی چھیڑتی ہے، یہ ایک انقلاب انگیز کتاب ہے، جیسے سورج کی تمازت میں کبھی کمی نہیں آسکتی اور سمندر کی وسعتوں کو کم نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح اس کتاب کی اثر انگریزی، اس کی تاثیر، دلوں کو زیر و زبر کردینے کی صلاحیت اور فکر و نظر پر چھا جانے کی طاقت میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوسکتی، یہ رواں دواں زندگی میں انسان کی رہنمائی کی پوری صلاحیت رکھتی ہے، اس لئے اس کی آب و تاب میں کوئی فرق نہیں آسکتا، خود اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے، جو اس بات کا اعلان ہے کہ قرآن مجید قیامت تک اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ محفوظ رہے گا۔
            دنیا میں جو دوسری مذہبی کتابیں ہیں، انسانی زندگی سے ان کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے، آج کوئی ہندو،بدھسٹ یا عیسائی اپنی تجارت، کاروبار، نظامِ حکومت، طریقۂ عدل و انصاف، ازدواجی زندگی، خاندانی تعلقات، مختلف قوموں کے باہمی روابط اور اس طرح کے دوسرے مسائل میں اپنی مذہبی کتابوں سے رجوع نہیں کرتا، نہ وہ اپنے مذہبی علماء سے احکام و مسائل معلوم کرتے ہیں، زیادہ سے زیادہ بعض قومیں نحس و برکت وغیرہ کے سلسلہ میں جو توہمات ہیں، ان کے لئے مذہبی شخصیتوں سے رجوع ہوتے ہیں اور کچھ عباداتی رسوم کو اپنی عبادت گاہوں میں انجام دیتے ہیں، عام لوگ ان کتابوں کو نہ پڑھتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں، سمجھاجاتا ہے کہ کچھ مخصوص لوگ ہی اس کو پڑھنے اور سمجھنے کے اہل ہیں، اس لئے ان قوموں کی زندگی میں مذہب کا ہمہ گیر تصور نہیں پایا جاتا اور وہ زندگی کے عام مسائل میں اپنی خواہش کے متبع ہیں،ـــــــ نہ کوئی حلال، نہ حرام، نہ جائز  نہ ناجائز اور نہ مکروہ، نہ مستحب۔
            لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اُمتِ مسلمہ اپنی بہت سی کمزوریوں اور کوتاہ عملیوں کے باوجود آج بھی اپنے مذہب سے مربوط ہے، خود ہمارے ملک ہندوستان میں بیسیوں دار الافتاء ہیں، جن کے پاس روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں فتاویٰ کی ڈاک آتی ہے اور لوگ زندگی کے نوع بہ نوع مسائل کے بارے میں حکمِ شرعی دریافت کرتے ہیں، کسی جبر و دباؤ کے بغیر اپنے سینکڑوں نزاعات کو شرعی پنچایت اور دار القضاء میں لے جاتے ہیں اور مسلمان، چاہے زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ہو، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے زندگی گذارے، اسی چیز نے اسے الحاد و بد دینی کے اس طوفان میں بھی دین سے ربوط رکھا ہے اور وہ اس لادینی ثقافت کے آگے سر تسلیم خم کرنے کو تیار نہیں ہے، جس کے سامنے آج تمام قومیں اپنی شکست تسلیم کرچکی ہیں، یہ سب قرآن مجید کا فیض ہے، یہ وہ چیز ہے جس نے حق اور سچائی کے دشمنوں کو قرآ ن مجید کے خلاف کھڑا کردیا ہے، لیکن یہ بات کہ قرآن مجید کا کچھ حصہ حذف کردیا جائے، کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ مطالبہ تو خود نزولِ قرآن کے زمانہ میں بھی ہوا۔(سورہ یونس :15) لیکن جیسے ان معاندین کی خواہش ناکام و نامراد ہوئی، آج جو لوگ قرآن مجید کے خلاف زبان کھول کر سورج پر تھوکنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی اس بے جا خواہش اور مطالبہ کا بھی وہی حشر ہوگا۔

ہندوستان میں حقیقت پسند ہندو علماء نے ہمیشہ قرآن مجید کو عقیدت و احترام کی نظر سے دیکھا ہے، گاندی جی اور ونوبا بھاوے جی مذہبی شخصیت کے حامل تھے، گاندھی جی قرآن سے بہت متاثر تھے اور اس کی تلاوت بھی کیا کرتے تھے، یہی حال ونوبا بھاوے جی  کا تھا، انہوں نے تو قرآن کی منتخب آیات کا ترجمہ اور مختصر تشریح بھی "روح القرآن" کے نام سے مرتب کی ہے، ہندوستان میں طباعت و اشاعت کی موجودہ سہولتوں اور پریس کی کثرت کے دور سے پہلے قرآن مجید کی طباعت میں سب سے نمایاں کام "منشی نو لکشور لکھنو" کا ہے، وہ صحت کے مکمل اہتمام کے ساتھ قرآن مجید طبع کیا کرتے تھے اور طباعت کے لئے سنگی تختیاں تیار کرتے تھے، نیز انہیں احتراماً دوسرئ زئر طباعت کتابوں اور ان کی تختیوں سے اوپر رکھا کرتے تھے۔(مأخوذ 24 آیتیں از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔