Pages

بدھ، 27 نومبر، 2013

قیامت کے دن کافروں کے چہرے سیاہ ہو جائینگے


اللہ تعالیٰ قرآن کریم سوره آل عمران آیت ١٠٦ میں فرماتے ہیں
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ
ترجمہ:" اس دن(قیامت کے دن) بعض چہرے سفید ہوں گے  اور بعض چہرے سیاہ ہوں گے ، پھر جن کے چہرے سیاہ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم ہی کافر ہوگے تھے اپنے ایمان کے بعد سو عذاب چکھو اپنے کفر کی پاداش میں."(القرآن ٣/١٠٦)
چہرے کی سفیدی اور سیاہی سے کیا مرد ہے؟

چہرے کی سفیدی اور سیاہی کا ذکر قرآن مجید میں بہت سے مقامات میں آیا ہے
مثلاً:
(الف) وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَّةٌ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ (٣٩/٦٠)
(ب) وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ، ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ ، وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ ،تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ (٨٠/٣٨-٤١)
(ج) وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ ،  إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ(٧٥/٢٢-٢٣)
        ان آیات میں ایک ہی مفہوم سے متعلق متعدد الفاظ ذکر کیے گئے ہیں ، یعنی "بیاض" اور "سواد" "غبرہ" ، "قرة" ، اور "نضرة" جمہور مفسرین کے نزدیک سفیدی سے مرد نور ایمان کی سفیدی ہے یعنی مومنین کے چہرے نور ایمان سے روشن اور غایت مسرّت سے خنداں اور فرحاں ہوں گے ، اور سیاہی سے مراد کفر کی سیاہی ہے یعنی کافروں کے چہروں پر کفر کی کدورت چھائی ہوگی اور اوپر سے فسق و فجور کی ظلمت اور زیادہ تیرہ و تاریک کردے گی.
      امام قرطبی ؒ نے اپنی تفسیر میں آیت يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ   کے متعلق فرمایا کے مومنین مخلصین کے چہرے سفید ہوں گے لیکن ان کے علاوہ ان تمام لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے جنہوں نے دین میں تغیر و تبدّل کیا ہو خواہ وہ مرتد اور کافر ہوگئے ہوں، خواہ اپنے دلوں میں نفاق کو چھپائے ہوئے ہوں ان سب کے ساتھ یہی معاملہ کیا جائے گا.(تفسیر قرطبی از معارف القرآن)

        بعض جاہل متعصبین نے اس آیت پر بعض اعتراضات کئے ہیں ان شاء الله ہم جواب دینے کی کوشش کرینگے
١. یہ کالے رنگ سے اتنی نفرت اور گورے سے اتنی محبت کیوں؟ اور کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ حضرت بلال حبشی بیچارے پر یہ آیت کیسی بجلی بن کر گری ہو گی؟

٢. الله پاک نے کالے کو برا اور گورے کو اچھا کہ کر پھر کالے لوگ کیوں پیدا کیے؟ کیا یہ نسلی انتہا پسندی نہیں ھے؟
٣. یوم قیامت کو حبشی لوگوں کا کیا بنے گا؟ ان کے چہرے تو ویسے ہی کالے ہوتے ہیں
الجواب بعون الوھاب:
معترض کے تینوں سوالات سے اس کی جہالت اظہر من الشمس ہے. ان تینوں سوالات کے جوابات اپ کو اپر ہماری خ گئی تفسیر میں مل جائیں گے.
سلسلے وار مختصر جوابات یہ رہے
١.حضرت بلال حبشیؓ ان آیات کے نزول کے وقت موجود تھے کچھ گزرتی تو پتا چل جاتا مگر کچھ نہیں گزری سواے خوشی کہ کیوں کہ وہ ایمان والے تھے اور قیامت کے دن ان کا چہرہ روشن ہی ہوگا .
٢. یہاں الله تعالى نے نہ گورے کو اچھا کہا اور نہ ہی کالے کو برا کہا ہے صرف مثال دی ہے کے ان لوگوں کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے جو کفر و ارتداد کرتے ہیں
لیجیے جناب آج دنیا میں برے کام کرنے والوں کی طرف کچھ اسی طرح نسبت کی جاتی ہے چند مثالیں
ا) سزا کے طور پر منہ کالا کیا جاتا ہے
ب) کوئی برا کام کر کے آنے والے کے لئے یہ جملہ زبان زد ہے
"کہاں منہ کالا کر کے آے"  علی ہٰذا بہت سی مثالیں دی جاتی ہیں
اس سے کسی کالے کی تخصیص نہیں ہوتی بل کہ اگر انڈے سے زیادہ بھی سفید ہو تو برے کام پر یہی کہا جاتا ہے .
٣. جیسا کہ آیات کی تفسیر سے واضح ہے کے اصل مدار نجات ایمان پر ہے تو موصوف جو یہ لکھ ہیں کے روز قیامت حبشیوں کا کیا ہوگا تو جواب یہ ہے کے حبشی اگر ایمان لے ہے تو وہ جنّت ممیں جائینگے انکے چہرے نور ایمان سے منور ہونگے اور اگر ایمان نہیں لائیں تو کفر کی ظلمت سے کالے ہونگے.
اب موصوف معترض کوچاہئے  کے پہلے اپنی فکر کریں اور قیامت کے دن ان کے ساتھ کیا ہوگا اس کا سونچیں اور ایمان لائیں ایک الله پر جس کے سوا کوئی معبود نہیں.
واللہ اعلم بالصواب.

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔