Pages

جمعہ، 31 جولائی، 2015

RSS کے سوالات کے جوابات 1


جواب حاضر ہے !
از  مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
            آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر یکم مارچ ۲۰۱۵ء کے شمارہ میں آر ایس ایس کی جانب سے مسلمانوں کے نام دس سوالات پیش کئے گئے ہیں ، یہ دراصل ان چھ سوالات کے مقابلہ میں ہیں ، جو سنی علماء کونسل نے سنگھ پریوار کے سامنے پیش کئے تھے ، آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت خود تو مسلمانوں سے ملاقات کا حوصلہ نہ کرسکے ؛ لیکن سنگھ کی ایماء پر راشٹریہ مسلم منچ کے صدر اندریش کمار ( جن کا شمار سنگھ کے اہم ذمہ داروں میں ہوتا ہے ) نے سنی علماء کونسل کے وفد سے ملاقات کی ، کونسل کی طرف سے چھ سوالات کئے گئے ، ان میں پہلا سوال یہ تھا کہ کیا سنگھ بھارت کو ایک ہندو ملک مانتا ہے ؟ دوسرا سوال تھا کہ کیا سنگھ نے بھارت کو ہندو راشٹر میں بدلنے کے لئے کوئی خاکہ تیار کیا ہے ؟ تیسرا سوال : کیا یہ ہندو راشٹر ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے مطابق ہوگا یا سنگھ نے کوئی نیا فلسفہ تیار کیا ہے ؟ چوتھا سوال یہ کہ تبدیلی ٔمذہب پر وہ کیا چاہتے ہیں ؟ پانچواں سوال کہ سنگھ مسلمانوں سے کس طرح کا راشٹریہ پریم چاہتا ہے ؟ اور چھٹا سوال کہ سنگھ اسلام کو کیسے دیکھتا ہے ؟
            اندریش کمار جی ان سوالات کا جواب دینے کے موقف میں نہیں تھے ، اس لئے انھوں نے جواب دینے سے انکار کردیا ؛ البتہ انھوں نے ٹالنے کے لئے یہ بات کہی کہ مسلمانوں کا ایک اجلاس بلایا جانا چاہئے ، وہ وہاں عوامی طورپر جواب دیں گے ۔
            ان سوالات کے رد عمل کے طورپر سنگھ کے ایک نمائندہ ڈاکٹر پرمود پاٹھک جو ویدک اسکالر ہیں اور گوا کے رہنے والے ہیں ، نے دس سوالات مسلم تنظیموں اور علماء سے کئے ہیں ، بعض سوالات مذہبی نوعیت کے ہیں اور بعض سیاسی ، سیاسی اُمور سے متعلق سوالات کا جواب اصل میں ان لوگوں کو دینے کا حق ہے جو اس میدان میں سرگرم ہیں ؛ لیکن کوشش کی جائے گی کہ مذہب سے متعلق سوالات کے ساتھ ساتھ کچھ تبصرہ ان سیاسی سوالات پر بھی ہوجائے ۔
کیا ہندو کافر ہیں ؟
            ان کا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا آپ ہندو یا کسی غیر ہندو کو کافر تسلیم کرتے ہیں ؛ کیوںکہ جیساکہ کہا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا کافروں کا صفایا کردیا جائے گا ؟
            اسلام کی بنیاد عقیدۂ توحید پر ہے ، عقیدۂ توحید سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی ایک ہے ، دو یا اس سے زیادہ خدا نہیں ، اللہ کا کوئی کنبہ یا خاندان نہیں ، نہ اس کی بیوی ہے ، نہ اس کے ماں باپ ہیں اور نہ اس کی اولاد ، وہ اپنی صفات و اختیارات میں بھی یکتا ہے ، عبادت صرف اسی کی کی جاسکتی ہے ، جو لوگ ان باتوں کا اقرار کرلیں ، ان کو ’’ مسلم ‘‘ کہتے ہیں ، مسلم کے معنی ہیں خدا کو ایک ماننے والا ، ایک خدا کے سامنے سر جھکادینے والا ، جو لوگ خدا کو ایک تسلیم نہیں کرتے ، خدا کا انکار کرتے ہیں یا کئی خدا مانتے ہیں ، ان کے لئے کوئی اصطلاح ہونی چاہئے ، اسی اصطلاح کے طورپر کافر کا لفظ استعمال کیا گیا ، کافر کے معنی ہیں : عقیدۂ توحید کا انکار کرنے والا ، یا دوسرے لفظوں میں خدا کو ایک نہ ماننے والا ، اس اعتبار سے جو لوگ اسلام قبول نہیں کرتے وہ کافر کہلاتے ہیں ؛ کیوںکہ کافر کے معنی انکار کرنے والے کے ہیں ، جو لوگ آخرت کا انکار کرتے تھے ان کے لئے قرآن مجید نے کہا ہے : ’’ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کَافِرُوْنَ‘‘ (یوسف : ۳۷) اسی طرح جو لوگ توحید کا اور انبیاء کے ذریعہ آنے والے دین کا انکار کیا کرتے تھے ، وہ خود اپنے بارے میں کہتے تھے ، ہم اس کے کافر یعنی منکر ہیں : ’’ اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ کَافِرُوْنَ‘‘ ( زخرف : ۲۴) بعض ہندو بھائیوں کے ذہن میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ کافر کا لفظ اہانت آمیز ہے ، یہ درست نہیں ہے ، یہ تو صرف اظہار واقعہ ہے کہ فلاں شخص دین اسلام کا قائل نہیں ، اگر کافر کا لفظ اہانت آمیز ہوتا تو قرآن مجید میں بار بار اہل مکہ کو ’’ کافرون ‘‘ کے لفظ سے مخاطب کیا گیا ، انھیں یہ بات ناگوار گذرتی اور وہ اس پر اعتراض کرتے ؛ لیکن ان کی طرف سے ایسا کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا ، اس کے باوجود فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کسی غیر مسلم کو کافر کے لفظ سے مخاطب کرنا گراں گذرتا ہے تو انھیں کافر سے مخاطب نہ کیا جائے ، اگر کوئی مسلمان ایسا کرے تو گنہگار ہوگا : ’’ ولو قال لذمی : یا کافر ! یأثم إن شق علیہ‘‘ ( الاشباہ والنظائر : ۲؍ ۲۵۷) اگر کسی نے کسی ذمی کو ’’ اے کافر ! ‘‘ کہہ کر پکارا ، جو اس پر گراں گذرتا ہو تو اے کافر کہنے والا شخص گناہ گار ہوگا ۔
            رہ گئی یہ بات کہ ایک وقت آئے گا جب کافروں کا صفایا کردیا جائے گا ، یعنی مسلمان تمام کافروں کو تہہ تیغ کردیں گے ، یہ بات نہ قرآن میں آئی ہے اور نہ حدیث میں اور نہ کبھی مسلمانوں نے ایسا دعویٰ کیا ، مسلمان اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ جنگ اور دباؤ کے ذریعہ پوری دنیا کو مسلمان کردیا جائے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ‘‘ ( البقرۃ : ۲۵۶) یعنی انسان کو خود سمجھنا چاہئے کہ ہدایت کا راستہ کونسا ہے اور کونسا راستہ گمراہی کی طرف لے جاتا ہے ؟ ایسا نہیں ہے کہ اسلام کی اشاعت میں جبر و اکراہ سے کام لیا جائے ، اگر مسلمانوں نے بہ زور تلوار دین کو پھیلانے کی کوشش کی ہوتی اور جو اسلام قبول نہ کرے ، اس کوتہہ تیغ کردیتے تو آج مسلمان ہندوستان میں ایک چھوٹی سی اقلیت میں نہ ہوتے اور کیا برہمنوں ، پنڈتوں ، جاٹوں اور راجپوتوں ، نیز مراٹھوں جیسی طاقتور ، بہادر ، حوصلہ مند اور جنگ جو قوموں کے بارے میں یہ بات سوچی جاسکتی ہے کہ انھوںنے کسی طاقت سے دب کر اسلام قبول کرلیا ہوگا ؟ --- حدیث میں البتہ یہ بات آئی ہے کہ قیامت کے قریب آسمان کی طرف سے ایک مرد ِغیب کی آمد ہوگی جس کا انتظار مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں اور عیسائیوں کو بھی ہے ، ان کے ذریعہ پوری دنیا میں دین حق پھیل جائے گا اور سارے لوگ مسلمان ہوجائیں گے ، پاٹھک جی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہئے کہ کافروں کا صفایا قتل و خون اور مار کاٹ کے ذریعہ ہوگا ؛ بلکہ یہ دعوتِ اسلام کے ذریعہ ہوگا اور لوگ اپنی مرضی سے اسلامی تعلیمات سے متأثر ہوکر ایمان لے آئیں گے ، اس عقیدہ میں غیر مسلم بھائیوں سے کسی نفرت کا بالکل اظہار نہیں ہے ۔
اللہ کی طرف لے جانے والے
            دوسرا سوال یہ کہ کیا گیا ہے کہ چوںکہ آپ اسلام کو اللہ کی طرف لے جانے والا مانتے ہیں تو کیا دوسرے مذہب ہندو ، جین ، بودھ ، سکھ اور دوسرے مذاہب کیا اسی راستے پر گامزن ہیں اور اسی طرف لے جانے والے ہیں ؟
            اس سلسلہ میں یہ عرض ہے کہ ظاہر ہے اللہ کی طرف لے جانے والا راستہ وہی ہوگا ، جو خود اللہ کا بتایا ہوا راستہ ہو ، اللہ نے اپنا راستہ بتانے کے لئے ہر زمانہ میں اپنے پیغمبر بھیجے ، انسان کی کمزوری یہ ہے کہ اس کو ہر چیز میں ملاوٹ کی عادت ہے ، اب دیکھئے کہ دودھ ، گھی اور شہد سے لے کر پھل اور اناج تک کوئی چیز ایسی نہیں ، جس میں انسان اپنی یہ کارستانی نہ دکھاتا ہو ، بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات عرض کرنی پڑتی ہے کہ ہمارے سنگھ پریوار کے دوستوں نے پوری توجہ مذہبی منافرت کو بڑھانے پر مبذول کر رکھی ہے ، اگر وہ اس کے بجائے ویدک دھرم کی حقیقت کو جانتے اور ان کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے تو واقعی وہ قوم کے سب سے بڑے محسن اور حقیقی سیوک ہوتے ، دنیا میں جب بھی خدا کی طرف سے دین بھیجا گیا تو اس کی بنیاد اللہ کو ایک ماننے ، اللہ ہی کی عبادت کرنے اور اللہ ہی کے احکام پر عمل کرنے کی تعلیمات پر تھی ، لوگوں نے ملاوٹیں پیدا کرکے اصل دین کو متأثر کردیا ۔
            آج کل ہندو مذہبی کتابوں میں توحید کی بات اتنی وضاحت سے کہی گئی ہے کہ اگر بصیرت کی آنکھ موجود ہو تو اندھا بھی اسے دیکھ لے ، قرآن مجید کہتا ہے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ، ( الفاتحہ : ۱ ) … وید کا بیان ہے : اس دنیا کے بنانے والے کے لئے تعریف ہے ، ( ۵ : ۱۸ : ۱ ) قرآن کہتا ہے کہ اللہ کی ذات رحمن و رحیم ہے ، (الفاتحہ : ۲ ) وید کا بیان ہے کہ وہ دینے والا اور مہر بان ہے ، (رگ وید : ۳ : ۳۴ : ۱ ) قرآن نے کہا ہے کہ ہر چیز کو اللہ ہی نے پیدا کیا ، ( الفرقان : ۲ ) وید کا بیان ہے : پرما تما سب پرجا کو بناتا ہے ، ( اتھر وید : ۱۹ : ۱ ) قرآن کہتا ہے کہ اللہ ہی کے لئے آسمان اور زمین کی حکومت ہے ، ( البقرۃ : ۱۰۷ ) وید کا بیان ہے : وہی عظیم زمین و آسمان کا مالک ہے ، ( رگ وید : ۱۰۱ ) ، قرآن کہتا ہے کہ مشرق و مغرب کا اللہ ایک ہی ہے ، ( البقرۃ : ۱۱۵ ) وید کا بیان ہے کہ سب سمتیں اسی کی ہیں ( رگ وید ، ۱۰ : ۱۲۱ : ۴ ) قرآن کہتا ہے کہ اللہ کے مانند و مماثل کوئی چیز نہیں ’’ لیس کمثلہ شیٔ‘‘ ( الشوریٰ : ۱۱ ) وید کا بیان ہے : اس پر میشور کی کوئی مورتی نہیں بن سکتی ( یجر وید ، ۳۲ : ۳ ) قرآن کہتا ہے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے ، خواہ تم کہیں بھی ہو ، اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو ، وہ اسے دیکھ رہا ہے ، ( الحدید : ۴ ) وید کا بیان ہے : جو کھڑا ہوتا ہے ، جو چلتا ہے ، جو دھوکہ دیتا ہے ، جو چھپتا پھرتا ہے ، جو دوسروں کو تکلیف دیتا ہے ، جو دو آدمی خفیہ بات کرتے ہیں ، تیرا ایشور ان سب کو جانتا ہے ، ( اتھر وید : ۴ : ۱۶ : ۲ ) قرآن کہتا ہے : اللہ ہی خالق اور حاکم ہے ، اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ، بڑی خوبیوں والا ہے ، تم لوگ اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور پست آواز میں دعاء کرو ( الاعراف : ۵۵ ، ۵۴ ) وید کا بیان ہے : قابل پرستش زمین اور آسمان کو سچے راستہ پر چلانے والے پر میشور سے عاجزی سے ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگو ( رگ وید : ۶ : ۱۶ : ۴۶ ) … کہاں تک مثالیں پیش کی جائیں ، اللہ تعالیٰ کی توحید اور صفات کے بیان میں قرآن مجید اور ویدوں میں اس قدر یکسانیت ہے کہ حیرت ہوتی ہے ، اگر ہندوتوا تنظیمیں لوگوں کو لاٹھی اور بندوق سکھانے کے بجائے وید کا نغمۂ توحید سنائیںاور ویدک دھرم کا اصل نظریۂ توحید ان کے سامنے پیش کریں تو کتنی بھلی بات ہوگی ، اس طرح انسان کا رشتہ خداسے مضبوط ہوتا ، اور خدا کی توحید کا تصور انسانی وحدت کا ماحول پیدا کرنے اور طبقاتی تفریق سے انھیں بچانے میں ممد و معاون ہوتا ، کلمۂ طیبہ کے پہلے جزء کا خلاصہ یہی عقیدہ توحید ہے ، اب ہندو بھائی سوچیں کہ مورتی پوجا کر کے وہ اپنی مذہبی کتابوں کے احکام کی تعمیل کر رہے ہیں ، یا اس کی مخالفت اور عدول حکمی ؟
            اسلام مسلمانوں کی میراث نہیں ہے یہ تو پوری انسانیت کی امانت ہے ، جن لوگوں نے اپنی امانتوں کو کھو دیا ہے ، ان کے لئے ہم نے ان کی متاع گم گشتہ کی حفاظت کی ہے ، وہ آئیں اور اپنے خدا کی دی ہوئی امانت شوق کے ہاتھوں قبول کرلیں ، ہندو مذہب ہو یا جین یا بودھ یا سکھ ، ہر مذہب کی بنیادی تعلیم توحید ، رسالت اور آخرت ہے ، جو لوگ ان حقیقتوں کو تسلیم کرلیں گے ، وہ سب اللہ کے راستہ پر آجائیں گے ۔
            البتہ اس حقیقت کے اظہار میں کوئی تکلیف نہیں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے اپنے مذہب کی حقیقی تعلیمات کی حفاظت نہیں کی ، یہاں تک کہ گرونانک جی جن پر زیادہ عرصہ نہیں گذرا انھوںنے صراحتاً گرو گرنتھ میں عقیدۂ توحید کا ، قرآن مجید کی حقانیت کا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ذکر فرمایا ہے ؛ لیکن اس کے باوجود سکھ بھائی بھی عملاً شرک میں مبتلا ہوگئے ۔
            اس لئے ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا کی طرف لے جانے والا سیدھا اور درست راستہ اسلام ہے ، جس کی ابتدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہوئی ؛ بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور ہر زمانہ میں مختلف پیغمبروں کے ذریعہ جس کو ویدوں میں دُوت ( سفیر ) سے تعبیر کیا گیا ہے آتے رہے ، یہی سارے انسانیت کا اصل مذہب ہے ، وہ اپنی آخری شکل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسانیت تک پہنچا اور جس طرح پہنچا اسی طرح محفوظ ہے ، اس لئے خدا تک پہنچنے کا یہی ایک راستہ ہے ، ہندو بھائی اور دوسرے اہل مذاہب اپنے اصل مذہب پر آجائیں جو قرآنی تعلیمات کو شامل ہے تو وہ بھی خدا کے راستے پر ہوں گے اور اگر انھوںنے اس کو قبول نہیں کیا تویہ چیز انھیں اللہ کی طرف لے جانے کی بجائے اللہ کے راستے سے ہٹادینے والی ہوگی ۔
            یہ کوئی تنگ نظری نہیں ہے ؛ بلکہ ہر مذہب وہ خدا اور آخرت کے بارے میں جو تصور پیش کرتا ہے ، اسی کو حق اور مدار نجات قرار دیتا ہے ، ہندو مذہب میں بھی جو لوگ اس مذہب کو قبول نہ کریں ، وہ ان کے عقیدہ کے مطابق خدا کے راستہ سے ہٹے ہوئے ہیں اور ان کو نرک میں جانا ہوگا ، یعنی اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خدا کے راستہ سے ہٹے ہوئے لوگوں میں اس کا شمار ہوگا ، ہندو مذہب کی موجودہ شکل کے اعتبار سے تو بعض لوگ ذات پات کی بنیاد پر بھی دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ؛ چنانچہ منوسمرتی میں ہے : ’’ جو کوئی شودر کو دھرم کی تعلیم دے گا اور جو اسے مذہبی مراسم ادا کرنا سکھائے گا وہ اس شودر کے ساتھ ہی اسم ورت نامی جہنم میں جائے گا ‘‘ ۔ ( منو سمرتی : ۴ : ۸۱)
            لیکن بہر حال اس کا تعلق آخرت سے ہے نہ کہ دنیا سے ، آخرت میں ثواب و عذاب دینے کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے نہ یہ کہ کوئی قوم دوسری قوم کو عذاب دے گی ؛ لیکن اس دنیا میں ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ تشدد یا اہانت کا رویہ اختیار کرے ، اسلام نے اس سے منع کیا ہے ۔ ( جاری)

(شمع فروزاں روزنامہ منصف 31 جولائی 2015)

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔