Pages

منگل، 18 اگست، 2015

کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں؟؟؟

اسلام اور آزاد خیالی حصہ ۶

یہ صحیح ہے کہ مذہب کے نام پر ایک عرصہ تک دنیا میں ظلم و ستم کی حکمرانی رہی اور یہ بھی سچ ہے کہ اب تک بعض ملکوں میں مذہب ہی کے نام پر ظلم وستم کا دور دورہ ہے۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں۔ کیا ہٹلر نے اسی مذہب کے نام پر حکومت کی تھی؟ یا اسٹالن جس کے بارے میں روسی صحافیوں اور دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ بڑا سخت گیر،ظالم، مطلق العنان تھا، اس نے روس پر ایک پولیس کی طرح حکومت کی ہے اس نے اپنی حکومت و اقتدار کی خاطر مذہب ہی کا نعرہ بلند کیا تھا؟اور کرتہے ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر چراغ پا ہوجاتے ہیں اور مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس لئے اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ بیسویں صدی جس نے مذہب سے نجات پانے کے لئے کیا کیا نہ جتن کئے اور اس کے لئے کیا کیا قربانیاں نہ دیں، مگر اسے وحشیانہ مطلق العنانی کا وہ دور دیکھنا پڑا  جس میں مذہب سے زیادہ پر کشش اور مقدس نام کے سہارے بنی نوع انسان کو زبردست فریب دیا گیا۔
کوئی بھی شخص مطلق العنانی (Dictatorship) کی تعریف نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی آزاد ذہن و دماغ اور بیدار قلب و ضمیر والا انسان اسے تسلیم ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح فطرت و طبیعت کی سلامت روی کا تقاضا تو یہ ہے کہ خواہشات نفسانی کی اتباع کئے بغیر حق خالص کا اقرار کرلیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس دیکھنے میں یہ آیا کہ ہر خوبصورت اور محترم اصول (principle) کو غلط طور پر استعمال کیا گیا ہےا ور اپنے ذاتی اغراض و مفاد کو چھپانے کے لئے اسے بہترین پردہ بنایا گیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب فرانس (French Revolution) کے نشہ کے دوران اسی آزاد خیالی (Liberalism) کے نام پر انتہائی بد ترین اور خبیث قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ تو کیا اس کی روشنی میں ہم جذبۂ استقلال و حریت کو لغو قرار دے دیں؟ اور اسی طرح سینکڑوں بے قصور اور معصوم انسانوں کو دستور کے نام پر قید و بند کی صوعبتیں جھیلنا پڑیں،سزائیں دی گئیں، یہاں تک کہ رسم دار ورسن بھی پوری کی گئی، تو کیا اس وجہ سے ہم دستور کو ایک قلم منسوخ کردیں ، یا کچھ ملکوں میں مذہب کے نام پر اب بھی ظلم وستم کی حکمرانی ہے۔ کیا یہ مناسب بات کوگی کہ اس سے نجات پانے کے لئے ہم مذہب ہی سے محروم ہوجائیں؟ ہاں ہم ایسے مذہب کو ضرور دیس نکالا دیں گے اور اسے ممنوع قرار دیں گے جو اپنے نصاب تعلیم، نظریاتِ زندگی، نیز بذات خود ظلم و تشدد اور ناانصافی کی تبلیغ و اشاعت کرتا ہوگا۔ لیکن کیا یہ مثال اسلام پر بھی صادق آتی ہے؟ جو کہ عدل و انصاف کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اور خاص بات تو یہ ہے کہ اسلام کا عدل و مساوات صرف مسلمانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ نازک سے نازک حالات میں بھی غیر مسلموں،دشمنوں،جنگی حملہ آوروں کے لئے بھی عام ہے۔
آئیے، ذرا سوچیں کہ آخر اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟ تو حالات و مشاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم و ستم،سرکشی و بغاوت سے نپٹنے کے لئے صرف ایک طریقہ ہے، وہ یہ کہ اہل ایمان کا ہر اول دستہ تیار کیا جائے جو اللہ وحدہ لا شریک لہ پر پختہ عقیدہ رکھتا ہو اور اس آزادی کا احترام کرتا ہو جس کی دعوت مذہب نے دی ہے اور جس آزادی کی حفاظت کی ذمہ داری خود مذہب کے اوپر ہے۔ یہ ایمانی ہر اول دستہ ظالم حکمراں کو کبھی بھی نا انصافی کی اجازت نہیں دے گا۔ بلکہ جائز اختیرات کے حدود میں رہ کر انہیں کام کرنے کی ترغیب دے گا۔ میرا خیال ہے کہ عدل و انصاف کا استحکام و قیام نیز جبر و تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلام سے بہتر کبھی بھی کسی نظام حکومت کی تشکیل اس سر زمین پر نہیں ہوئی۔ اسلام نے عوام پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ اگر حکمراں منصف نہ ہوں تو انہیں صحیح راستہ پر لگائیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے  
من رأى منكم منكرا فليغيره (صحیح مسلم)
یعنی تم میں کا کوئی شخص اگر برائی دیکھے تو اسے دور کرے۔ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ
"یعنی عدل انصاف کا ایک کلمہ (بات) جو ظالم بادشاہ کے سامنے کہا گیا ہو وہ جہاد سے بڑھ کر ہے۔(ابو داود و ترمذی)
بہر حال آخر میں ہم اپنے ترقی پسند اور آزاد خیال (progressive & Free Thinker) بھائیوں سے صرف ایک بات کہیں گے وہ یہ کہ آزادئ خیال کا صحیح راستہ اور ذریعہ مذہب بیزاری نہیں ہے بلکہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایسی مضطرب اور انقلاب انگیز روح سے آشنا کرایا جائے جو ظلم سے نفرت کرتی ہو اور ظالم کا مقابلہ کرسکتی ہو دراصل یہی جذبۂ ایمانی اور روح مسلمانی ہے جو بندۂ مؤمن کو مطلوب ہے۔
اے خدا سینۂ مسلم کو عطا ہو وہ گداز
تھا  کبھی  حمزہؓ  و  حیدرؓ  کا  جو  سرمایۂ  ناز
پھر فضا میں تیری تکبیر کی گونجے آواز
پھر تو اس قوم کو دے گرمی روح آغاز
نقش  اسلام  ابھر  آئے  جلی  ہوجائے
ہر مسلمان  حسینؓ   ابن  علیؓ  ہو جائے

(جوشؔ)

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔