Pages

جمعرات، 18 فروری، 2016

اسلام میں تعددِ ازواج کا حکم عین حکمت پر مبنی ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام میں تعددِ ازواج کا حکم عین حکمت پر مبنی ہے

وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا
ترجمہ:اور اگر تم کو ڈر ہو کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرلو جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو، تین تین، چار چار سو اگر تم کو ڈر ہو کہ انصا ف نہ کرسکو گے تو ایک ہی عورت سے نکاح کرلو، یا ان لونڈیوں پر بس کرو جو تمہاری ملکیت ہوں۔ یہ اس سے قریب تر ہے کہ تم زیادتی نہ کرو(سورہ النساء: آیت۳)

چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت اور عدل کرنے کا حکم :
اور ساتھ ہی ساتھ عورتوں کی تعداد کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا کہ جو عورتیں پسند ہوں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرسکتے ہو اور اگر یہ ڈر ہو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتوں سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند ہوں۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اول تو ہر شخص کو بیک وقت دو یا تین یا چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ جو تمہیں اچھی لگیں ان سے نکاح کرلو ایک سے زائد نکاح کرنا جائز ہے۔ فرض اور واجب نہیں ہے اور جائز بھی اس شرط پر ہے کہ جتنی بیویاں ہوں ان سب کے درمیان عدل و انصاف رکھے۔ قلبی تعلق پر تو مواخذہ (گرفت) نہیں ہے کہ یہ اختیاری چیز نہیں۔ البتہ اختیاری چیز میں عدل نہ کیا تو گرفت ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے پاس دو عورتیں ہوں اور وہ ان دونوں عورتوں کے درمیان عدل یعنی برابری نہ کرتا ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا، جتنی راتیں ایک کے پاس رہے اتنی ہی راتیں دوسری کے پاس رہے تقسیم جس طرح چاہے کرے اس کے اختیار میں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح : صفحہ ٢٧٩: از ترمذی وغیرہ)
بہت سے لوگ پیسہ زیادہ ہونے کی وجہ سے یا خواہ مخواہ شوق میں آ کر پہلی بیوی پرانی ہوجانے کی وجہ سے یا نئی بیوی کے مالدار ہونے کی وجہ سے دوسری شادی کرلیتے ہیں۔ لیکن پھر برابری نہیں کرتے اور کسی ایک کے ساتھ ظلم و زیادتی بھی کرتے رہتے ہیں یہ شرعاً حرام ہے۔ اگر کسی کو برابری پر قدرت نہ ہو تو ایک ہی بیوی رکھے تاکہ ظلم و زیادتی سے محفوظ رہے۔
فائدہ : شریعت اسلامیہ میں بیک وقت صرف چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت ہے مگر مذکورہ بالا شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ دوسری قوموں میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اس کے بدلے میں ان کے یہاں یہ جائز ہے کہ بہت سی دوستانیاں (گرل فرینڈز) رکھ لے۔ زنا کاری کرنا ان کے نزدیک کچھ عیب کی بات نہیں ہے البتہ نکاح کر کے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا اور حلال طریقہ سے زندگی گزارنا ان کے نزدیک عیب ہے۔ اسلام پر جو بعض جاہلوں کے اعتراضات ہیں ان میں سے ایک یہ اعتراض بھی ہے کہ اسلام میں تعدد ازواج کی اجازت ہے۔ یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اول تو چار تک کی اجازت ہے واجب نہیں۔ دوسرے دنیاوی احوال کے اعتبار سے اس اجازت کی ضرورت ہے اول تو اس میں نسل بڑھانے کا فائدہ ہے اور دوسرا عظیم فائدہ یہ ہے کہ جب کسی وجہ سے مردوں کی قلت ہوجائے (جیسا کہ جہاد کے مواقع میں مرد شہید ہوجاتے ہیں) تو عورتیں بیوہ ہوجائیں۔ تحفظ آبرو کے ساتھ ان کے اخراجات کا انتظام ہوجائے۔ پھر جب عورتوں کی کثرت ہو اور مردوں کی کمی ہو (جیسا کہ اس کا دور شروع ہوچکا ہے) تو عورتوں کی عفت و عصمت اور شریفانہ معیشت کا انتظام اسی میں ہے کہ مرد ایک سے زیادہ نکاح کریں۔ جو لوگ گہرائیوں میں نہیں جاتے۔ حکمتوں کو نہیں سمجھتے انہوں نے اپنے ذمہ صرف اعتراض کرنا ہی لے رکھا ہے جب اجازت اور اباحت کو عدل و انصاف کے ساتھ مشروط و مقید کردیا گیا تو پھر کسی عقلمند کے لیے کسی طرح بھی اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی۔
پھر آیت کے خاتمے پر فرمایا : (ذٰلِکَ اَدْنآی اَلَّا تَعُوْلُوْا) (یہ اس سے قریب تر ہے کہ تم زیادتی نہ کرو) یعنی نکاح کے بارے میں جو تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے اس کے مطابق عمل کرو گے تو ظلم و زیادتی سے محفوظ رہ سکتے ہو مذکورہ ہدایت پر عمل کرنا ظلم سے بچانے کے لیے بہت زیادہ قریب تر ہے۔
فائدہ : بیک وقت چار عورتوں تک سے نکاح کرنے کی اجازت ہے لیکن اس میں شرطیں ہیں ہر عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا، مثلاً جو عورت کسی مرد کی عدت میں ہو اس سے نکاح نہیں ہو سکتا، دو بہنیں ایک مرد کے نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں اور جن عورتوں سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے ان سے کبھی نکاح نہیں ہو سکتا۔ جس کی تفصیل اس سورت کے چوتھے رکوع میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ اگر کوئی شخص بیک وقت چار عورتیں نکاح میں ہوتے ہوئے پانچویں عورت سے نکاح کرے گا تو یہ نکاح شرعی نہ ہوگا اور یہ عورت اس کی شرعی بیوی نہ بن سکے گی زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ بغیر کسی قانون کے بہت سی عورتوں سے نکاح کرلیا کرتے تھے۔ اسلام میں صرف چار تک کی اجازت دی گئی اور عدل و انصاف کی قید لگا دی گئی۔ غیلان بن سلمہ ثقفی (رض) نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے پاس دس عورتیں تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ چار کو رکھ لو اور باقی کو چھوڑ دو۔ (رواہ ابن ماجہ فی کتاب الطلاق)


0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔