Pages

جمعرات، 20 فروری، 2014

وجود باری تعالی یعنی ہستی صانع عالم کے دلائل عقلیہ سے ثبوت پہلی دلیل --- دلیل صنعت

وجود باری تعالی یعنی ہستی صانع عالم کے دلائل عقلیہ سے ثبوت
پہلی دلیل --- دلیل صنعت
تمام عقلاء اس بات پر متفق ہیں کے صنعت سے صانع(بنانے والا) کی خبر ملتی ہے مصنوع (جس کو بنایا گیا)اور صنعت (factory)کو دیکھ کر عقل مجبور ہوتی ہے کے صانع کا اقرار کرے اور دہریئے(atheist) اور لا مذہب لوگ بھی اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کے فعل کے لئے فاعل  کا ہونا ضروری ہے . پس جبکہ ایک بلند عمارت اور ایک بڑا قلعہ اور اونچے مینار کو اور ایک دریا کے پل کو دیکھ کر عقل یہ یقین کر لیتی ہے کہ اس عمارت کا بنانے والا کوئی ضرور ہے اور اس منار اور پل کا  بنانے والا کوئی بڑا ہی ماہر انجینیر ہے تو کیا آسمان اور زمین کی اعلیٰ ترین عمارت اور اسکی عجیب و غریب صنعت اور اسکی باقائدگی اور حسن ترتیب کو دیکھ کر ایک اعلیٰ ترین صانع کا کیوں اقرار نہیں کیا جاتا.
        ایک تخت کو  دیکھتے ہی یہ یقین آجاتا ہے کہ کسی کاریگر نے اس ہئیت اور وضع سے اس کو بنایا ہے کیونکہ تخت کا خود بخود تیّار ہوجانا اور خاص ترتیب کے ساتھ لوہے کی کیلوں کا اس میں جڑ جانا محال ہے کسی درخت کے تختوں اور لوہے کی کیلوں میں یہ قدرت نہیں کہ اس ترتیب سے خود بخود جڑ جائیں.
        ایک دہری اور سائنس دان ایک معمولی گہڑی اور گھنٹہ کو دیکھ کر یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ کسی بڑے ہی ماہر کی ایجاد ہے کے جو قوائد ہندسہ(digits) اور کل سازی کے اصول سے پورا واقف ہے اور یہ یقین کر لیتا ہے کے ضرور بالضرور اس گھڑی کا کوئی بنانے والا ہے کہ جس نے عجیب انداز سے اسکے پرزوں کو مراتب کیا ہے اور جس کے ذریعہ اوقات کا بخوبی پتہ چلتا ہے حالانکہ وہ یہ امر بخوبی جانتا ہے کہ دنیا کی گھڑیاں اور گھنٹے وقت بتلانے میں بسا اوقات غلطی کرتے ہیں مگر چاند سورج جو کبھی طلوع اور غروب میں غلطی نہیں کرتے اور جنکے ذریعہ سارے عالم کا نظام حیات اور نظام اوقات چل رہا ہے ،یہ دہری چاند اور سورج کے صانع کا اقرار نہیں کرتا اگر اس موقعہ پر کوئی یہ کہنے لگے کہ اس گھڑی کو ایک ایسے شخص نے بنایا ہے جو اندھا اور بھرا اور گونگا ہے اور ناسمجھ اور بے خبر اور علم ہندسہ سے بے بہرہ اور کل سازی کے اصول سے ناواقف ہے تو کیا یہی فلسفی اور سائنسدان اس کہنے والے  کو پرلے درجہ کا احمق نہ بتلائےگا ؟ غرض یہ کہ جہاں صنعت اور کاریگری پائی جائیگی صانع کا تصور اور اقرار ضرور کرنا پڑےگا.
بلکہ
صنعت کو دیکھ کر صرف صانع کا یقین ہی نہیں ہوتا بلکہ اجمالی طور پر صانع کا مرتبہ بھی معلوم ہو جاتا ہے پس کیا آسمان و زمین کی اعلی ترین صنعت کو دیکھ کر ہم کو یہ یقین نہیں ہوگا کہ اس کا صانع بھی بڑا ہی اعلی اور ارفع اور اعظم اور اجل اور عقل سے بالا اور برتر ہے کہ جس کے صنائع اور بدائع کے سمجھنے سے عقلاء عالم کی عقلیں قاصر اور عاجز ہیں.

یہ منکرین خدا جب بازار میں بوٹ جوتا خریدنے جاتے ہیں تو دکاندار سے پوچھتے ہیں کے یہ بوٹ کس کارخانہ کا بنا ہے تو وہ اگر جواب میں یہ کہے کہ یہ بوٹ کسی کارخانہ میں نہیں بنا ہے بلکہ یہ بوٹ خود مادہ اور ایتھر کی حرکت سے آپ کے پیر کے مطابق تیار ہوگیا ہے اور خود بخود حرکت کرکے میری اس دکان پر آگیا ہے تو منکر خدا صاحب دکاندارکے اس جواب کے متعلق کیا کہیں گے، غور کرلیں اور بتلائیں کہ کیا سمجھ میں آیا اور اپنے اوپر منطبق کریں.

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔